تحریر : قادر خان افغان کراچی کئی عشروں سے انتہا پسندی ، لسانیت ، فرقہ واریت اور صوبائیت کے عفریت میں جکڑا ہوا ہے ۔ سندھ رینجرز کو کراچی میں امن کے قیام کے نفاذ کیلئے تعینات کیا گیا تھا، لیکن ان سے قیام امن کا کام لینے کے بجائے وی آئی پیز کی سیکورٹی اور دیگرا کام زیادہ لیا جاتا تھا ۔ نیشنل ایکشن پلان میں جب یہ فیصلہ ہوا کہ اب کراچی میں کئی عشروں سے اس خوں ریزی کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تو یہ بھی فیصلہ ہوا کہ رینجرز کو ان کے اصل کام ، یعنی قیام امن کیلئے استعمال کرتے وقت سیاسی اثر رسوخ کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ کور کمانڈر کراچی نے سندھ رینجرز کے مکمل ساتھ دیا اور ڈی جی رضوان اختر نے کراچی میں حکمت عملیکے تحت رینجرز کو متحرک کرکے کراچی سے انتہا پسندوں اور لسانی تنظیموں کے عسکری ونگز کا خاتمے کا آغاز شروع کردیا ۔ رینجرز کے ڈائیریکٹر جنرل رضوان اختر کو ان کی خدمات کے صلے میں پاکستان کے سب سے معتبر اور اثر رسوخ کے قابل اعتماد ادارے آئی ایس آئی کا سربراہ 22ستمبر 2014 کو تعینات کردیا گیا ہے، اس سے قبل ظہیر الاسلام آئی ایس آئی کے سربراہ اور اُن سے قبل شجاع احمد پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ تھے ۔کراچی کے امن دشمن عناصر کا خیال تھا کہ شائد اب رینجرز کی جانب سے کاروائیوںمیں کمی واقع ہوجائے گی لیکن ڈی جی رضوان اختر کی جگہ ڈی جی میجر جنرل بلال اکبر کو کراچی آپریشن کی ذمے داریاں سونپ دی گئی اور کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل نوید مختیارنے کو رکمانڈر کراچی کی حیثیت سے رینجرز کا بھرپور ساتھ دیا۔
کراچی کے امن کیلئے ڈی جی ینجرز بلال اکبراور کور کمانڈر کراچی نوید مختیارنے کراچی کو تین عشروں سے یرغمال بنانے والے اور عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے والوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کا آغاز کیا تو کراچی کی سیاسی جماعتوں میں ہل چل مچ گئی ،ایم کیو ایم ، پاکستان پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی، لیاری گینگ وار ، سنی تحریک، مذہبی فرقہ وارانہ تنظیمیں،کالعدم جماعت طالبان ، ڈی جی ینجرز بلال اکبراور کور کمانڈر کراچی نوید مختیارنے فورسز کا بھرپوراستعما ل کیا کہ دہشت گردوں کی چیخیں نکل گئیں ، کراچی آپریشن شروع کرنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد لیا گیا تھا کہ ان کی سیاسی چھتری میں جو جو جرائم پیشہ ہیں انھیں معاف نہیں کیا جائے گا ، اور قانون کے دائرے میں لایا جائے گا ۔ رینجرز نے سیاسی جماعتوں کو ان کی جماعت میں شامل جرائم پیشہ عناصر کی فہرست بھی دی کہ ان کی گرفتاری کیلئے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے ، لیکن ہر سیاسی جماعت نے خود دودھ سے دھوئی جماعت قرار دیا اور کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کا ہماری جماعت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ رینجرز نے اپنی اخلاقی ذمے داری پوری کی ، اور پھر کراچی آپریشن کو مختلف مرحلوں میں تقسیم کردیا گیا۔
مذہبی منافرت والے گروہ سے تعلق رکھنے والوں پر جب رینجرز کا آپریشن ہوا ، تو آپریشن کے کپتان وزیر اعلی سندھ بڑے خوش تھے ، اس کے بعد جب اے این پی کی باری آئی توبھی کپتان بڑے خوش تھے ، ایم کیو ایم بھی بغلیں بجا رہی تھیں۔اب باری تھی تو ایم کیو ایم کی ، جب ان کے کارکنان کو گرفتار کئے جانے لگا تو ان کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ لیکن جب ان کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو ایم کیو ایم نے سٹپٹا گئی اور یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کردیاکہ یہ یکطرفہ آپریشن ہو رہا ہے ،لیکن جب نائن زیرو پر رینجرز نے کاری ضرب لگائی تو کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے تابوت میں کیل ٹھونک دی گئی ، نائن زیرو سے اسلحہ اور ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری کے بعد ایم کیو ایم کی دوسرے درجے کی قیادت فوراََ ملک سے فرار ہوگئی ، رہی سہی کسر’ را ‘کے ایجنٹ الطاف نے پوری کردی ، رینجرز اور فوج کے خلاف تو ان کی ان گنت تقاریر ہیں ، لیکن اس نے جب میڈیا میں یہ کہا کہ فوج اس سے ڈرتی ہے ، اس کے بعد فوج کے لئے ضروری ہوگیا کہ وہ کراچی میںقانون کی رٹ قائم کرکے دکھائے ، پاکستان پیپلز پارٹی جو بے انتہا خوش تھی ، لیکن جب رینجرز نے گینگ وار پر ہاتھ ڈالا اور ان کا لاڈلا عزیر بلوچ ،نثار مورائی ،ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا گیا تو اس کے بعد کرپشن کے بڑے بڑے مگر مچھوں پر پر رینجرز نے ایسا وار کیا کہ پی پی پی کی بھی چیخیں نکلنا شروع ہوگئیں اور وزرا بیرون ملک فرار ہوگئے۔ مینڈیٹ اور اختیارات کے نام پر وفاق سے محاذ آرائی شروع ہوگئی۔
Nisar Ali Khan
وفاق کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے یہاں سیاسی بلیک میل ہونے کے بجائے کراچی آپریشن کا ساتھ دیا اور رینجرز نے پی پی پی کے بڑے بڑے ناموں کے گرد ایسا گھیرا تنگ کیا ، کہ ان کی کمر کے نازک جوڑ ابھی تک ٹھکانے نہیں آسکے ۔ اس دوران پاک سر زمین پارٹی نے انٹری دے ماری ، ڈرائی کلین مشین بن کر الطاف کے خلاف کھل کر بولی ، لیکن مطالبہ یہ کیا کہ بے گناہ ہزاروں انسانوں کی جان لینے والوں کو معاف کردیا جائے ، یہ معصوم تھے ، بلدیہ فیکٹری میں جلائے جانے والے سینکڑوں معصوم بے گناہ کے قاتل معصوم ہیں ، کچرا چننے اور مونگ پھلی بیچنے والے محنت کشوں کے قاتل معصوم ہیں ، موچی ، روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے پختون ، رکشہ ، ٹیکسی ، مزدا ڈرائیور ، وکیلوں کو زندہ جلانے والے معصوم ہیں انھیں معاف کردیا جائے ، انھوں نے یہ تاثر قائم کیا کہ جو اِن کے پاس آجائے گا ، اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ نہیں کہیں گے ، ایم کیو ایم کی بزدل لیڈر شپ جنھیں مصطفی کمال نے اپنے دور میں ٹھیکے دے کر خوب نوازا تھا ، مثلاََ ایک نائی کو صوبائی اسمبلی کا ممبر بنایا ، اس کو سپر ہائی وے کے آکٹرائے کا ٹھیکہ دیا ، اس جیسے لوگ پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوکر خود کو قانون کی گرفت سے بچانے لگے ، ہر رابطہ کمیٹی کے رکن کے اپنی ٹیم ہوتی ہے جو اس کے لئے ٹارگٹ کلنگ اور بھتے وصولی سے لیکر ہر ناجائز کام کرتی ہے ، ان کی سرپرستی گورنر ہائوس سے کی جاتی رہی ، لیکن 22اگست کی الطاف کی تقریر نے خود ایم کیو ایم کیلئے اپنی بقا کا مسئلہ پیدا کردیا ، الطاف کو اپنا روحانی باپ کہنے والے ، منزل نہیں رہنما چاہے ،کی گردان کرنے والوں نے ، فوراََ الطاف کو ہی مائنس کردیا کہ بس بھائی بس ، اور نہیں چیف صاحب۔لیکن اس نئی ایم کیو ایم پر سیاسی جماعتوں سمیت کسی کو اعتبار نہ تھا۔
اسلئے اس میں شامل جرائم پیشہ عناصر کے خلاف رینجرز بھروپور کاروائی کرتی رہی اور جب نائن زیرو کے پڑوس سے کراچی کی سب سے بڑی اسلحہ کھیپ برآمد ہوئی تو ایم کیو ایم کے اوسان خطا ہوچکے تھے ، لیکن پولیس کی ناقص تفتیش یا کسی چمک نے اس کھیپ کے ذمے داروں کی گردن نہیں ناپی۔رینجرز نے پولیس کو شاباشی دی ، لیکن سب جانتے تھے کہ پولیس نے یہ کارنامہ تو سر انجام دے دیا لیکن کیس Aکلاس میں چلا جائے گا ْ۔اب تک رینجرز کراچی سے اسلحے کی سات سے زیادہ بڑی کھیپ زمین میں دفن ، باہر نکال چکی ہے ، ایم کیو ایم پاکستان میں شامل ، لندن گروپ کے پوشیدہ گروپ ، یونٹس اور ٹارگٹ کلرز کی فہرست مرتب کرچکی ہے اور ان پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے ، ایم کیو ایم پاکستان کتنا تعاون کررہی ہے ، اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے ، رینجرز نے پاک سر زمین پارٹی کے ڈرائی کلین ڈرامے کو بھی فاش کردیا کہ قانون نافذ کرنے والے کسی جرائم پیشہ عناصر کو سپورٹ نہیں کریں ،انیس قائم خانی کی گرفتاری ، سب کے لئے سرپرائز تھا ۔اس کے بعد پاک سر زمین پارٹی میں شامل کئی دہشت گردوں کو پکڑا گیا ، یہاں تک کہ حماد صدیقی کے لئے راہ ہموار نہ کرنے پر گورنر سندھ کا راز مصطفی کمال نے فاش کردیا ۔گورنر تو چلے گئے لیکن پاک سر زمین پارٹی مکمل یتیم ہوگئی۔ پی ایس پی عملی طور پر غیر فعال ہوچکی ہے ، اور اندازا یہ لگایا جارہا ہے کہ مصطفی کمال بحریہ ٹائون میں اپنی نوکری پر دوبارہ آجائیں گے ۔ حماد صدیقی کو راستہ نہیں مل سکا ، اور بلدیہ ٹائون فیکٹری کے مرکزی کردار ، رحمان بھولا ، جو کہ پاک سرز مین پارٹی کو جوائن کرچکا تھا۔
تھائی لینڈ میں پکڑا گیا ۔پاکستان آنے کے بعد اس کے انکشافات پاک سرزمین پارٹی کے لئے مزید پریشانیوں کا باعث بنے گے۔ قصہ مختصر ، بے گناہوں کے خون سے لبریز جرائم پیشہ افراد کو جنھوں نے سیاسی جماعتوں کی پناہ لی ہوئی تھی ، اور سیاسی جماعتیں ان سے اپنی مرضی کا کام لیتی تھیں ، رینجرز نے انھیں لگا م دے تو دی ، لیکن یہ امن مستقل نہیں ہے ۔ ایسے مستقل کرنے کیلئے پولیس میں موجود ان تمام سیاسی بھرتیوں کو ختم کرنا ہوگا ، جنھیں سابق دور اور حالیہ دور حکومت میں بھرتی کیا گیا ۔ کراچی کی عوام ڈی رینجرز بلال اکبر اور کور کمانڈر نوید مختیارکے مشکور ہیں اور نئے آنے والے افسران سے امید رکھتے ہیں کہ وہ کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک ضرور پہنچائیں گے اور کراچی ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح روشنیوںکا گہوارا بنے گا ، انشا اللہ، اہلیان کراچی میں امن کیلئے نمایاں شخصیات سابق کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ، سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر کو چیف آف جنرل اسٹاف ، سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس آئی اور لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر کو صدر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی بننے پر مبارکباد اور شکریہ ادا کرتے ہیں اور نئے آنے والے کراچی کے نئے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا،اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعیدسے توقع رکھتے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد ، جماعت کے خلاف بے رحمانہ آپریشن جاری رہے گا۔