اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر سابق صدر اور وزیراعظم حساب دے رہے ہیں تو پھر سب کو حساب دینا پڑے گا۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کورونا وبا کے بعد ہم اب تک معاشی مسائل سے نہیں نکلے، اور شدید بارشوں کے بعد ٹڈی دل کے حملوں سے زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب اور بارش سے بہت نقصان ہوا ہے، پورا میرپور خاص سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے، سیلاب متاثرین کا ساتھ دینا ہو گا اور پورے پاکستان کو ایک ہونا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخی بارش سے ہونے والے نقصان کے لیے غیر معمولی مدد کرنا ہو گی، کیونکہ زراعت کو نقصان ہوتا ہے تو پورے پاکستان کو نقصان ہوتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے منشور میں زراعت شامل ہے لیکن آج تک زراعت ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی، غریب کسانوں کو ریلیف دینا پڑے گا، چھوٹے کسانوں کو ہنگامی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت 5گھنٹوں کا ٹرپ لگا کر واپس نہ جائے، وزیراعظم عمران خان خود کو کپتان کہتے ہیں تو جس طرح وزیراعلیٰ سندھ اپنی ٹیم کے ساتھ سیلاب متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں اسی طرح وزیراعظم کو بھی سیلاب متاثرین کا ساتھ دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ہماری سب سے بڑی امید وفاق سے ہے کہ وہ عوام کو اپنائے، وزیراعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ سندھ کے عوام کو دل سے اپنائیں اور سیلاب متاثرین کریں۔
توشہ خانہ ریفرنس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ سابق صدر پر بتائے گئے تمام کیسز سیاسی اور مضحکہ خیز ہیں، سابق صدر کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام الزامات کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں لیکن سب کے ساتھ ایک جیسا انصاف ہونا چاہیے، سابق صدر جھوٹے الزامات کا بھی حساب دیتے ہیں، آج تک خورشیدشاہ جیل میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر اور وزیراعظم کا حساب ہو سکتا ہے تو پھر سب کو حساب دینا پڑے گا، یہ کھوکھلا نظام نہیں چلے گا۔
معاون خصوصی برائے اطلاعات کے استعفے سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ معاون خصوصی نے بہت اچھا فیصلہ کیا لیکن وہ عمران خان خان جو کہتے تھے کہ اگر کسی پر الزام ہے تو وہ پہلے استعفیٰ دیں، آج استعفیٰ ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔
آئی جی پنجاب کی تبدیلی سے متعلق سوال پر چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کا استحقاق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آئی جی کو تبدیل کرے لیکن اگر سندھ حکومت اپنا آئی جی تبدیل کرنا چاہے تو وفاق ہمیں کرنے نہیں دیتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں دو سالوں کے دوران 5 آئی جیز تبدیل ہو چکے ہیں، اگر اس طرح ہو گا تو عوام تو ضرور سوال کریں گے۔