تحریر: روشن خٹک سابق وزیرا عظم محمد نواز شریف اپنی بیگم کلثوم نواز کے علاج کے سلسلے میں ٣١ اگست کو لندن گئے تھے۔جس پر اپو زیشن جماعتوں کے جانب سے قیاس آرائیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں،کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔بناء بر ایں وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔لیکن ان کی اچانک وطن واپسی سے اس قسم کی قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں مگر دوسری طرف اسحق ڈار صاحب کا احتساب عدالت میں پیش ہونا، فردِ جرم عائد ہو نا، نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کرنا، عبوری حکومت تشکیل دینے کا شو شہ، سب ایسی باتیں ہیں کہ عوام کے سامنے ملکی سیاست کے مستقبل کا نقشہ بہت دھندلا، دھندلا سا دکھائی دے رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں سیاسی چالیں چل رہی ہیں۔کیونکہ سیاست سیاسی چالوں کا ہی نام ہے،جو وقت کے تقاضوں کے مطابق چلائی جاتی ہیں۔
ہمارے سیاسی لیڈر جب محسوس کرتے ہیں کہ وہ پھنس رہے ہیں تو وہ سیاست کی ڈور کو اتنا الجھا دیتے ہیں کہ سارا معاملہ مشکوک نظر آنے لگتا ہے اور دھاگے کی ڈور کا سِرا ہی غائب ہو جاتا ہے۔حال ہی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب پانامہ کیس میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نا اہل قرار دے دیا تو انہوں نے اسلام آباد سے لا ہور کا سفر بذ ریعہ روڈ کر کے جگہ جگہ پر عوام سے خطاب کے دوران ” مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا ” کا رٹ لگا کر معاملے کو اتنا الجھایا کہ اصل حقائق پسِ پردہ چلے گئے اورلوگ کنفیوژن کا شکار ہو گئے کہ حقیقت کیا ہے؟تحریر ہذا سے کچھ ہی دیر پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اس فیصلہ کو پاکستانی عوام کے خلاف سازش قرار دیا۔سابق وزیراعظمصحافیوں کے سوالات کا جواب دئیے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔”
درحقیقت نواز شریف ایک زبردست قسم کا سیاسی چال پر عمل پیرا ہیں،ان کی کو شش ہے کہ ہمدردی کا عمل اپنا رنگ دکھا دے اور سیاسی منظر نامہ اس مصرع کی تصویر بن جائے کہ ” کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ” دراصل ایسی سیاسی چالیں کبھی کبھار ایسی کامیاب ثابت ہو جاتی ہیں کہ ملز موںاور مجرموں کے چہروں پر ایسی معصومیت نظر آنے لگتی ہے کہ ہر دیکھنے والی آنکھ ان کی معصومیت سے متا ثر ہو کر ان پر الزام لگانے والوں کو ہی مطعون کرنے لگتی ہیں۔غالب گمان یہی ہے کہ نواز شریف اس چال چلنے میں کامیاب ہو جائینگے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف صوبہ پنجاب کا ایک علامت بن چکا ہے،پنجاب کے لوگ اسے اپنا نمائیندہ سمجھنے لگے ہیں، پنجاب کی آبادی تینوں صوبوں ک ی آبادی سے زیادہ ہے جس شخص کو پنجاب اپنا لیڈر تسلیم کر لے ، تو پھر اسے نہ تو غیر سیاسی موت مارا جا سکتا ہت اور نہ ہی اسے غیر سیاسی ہتھگنڈوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔کرپشن کے الزامات عموما سیاستدانوں پر لگتے رہتے ہیں مگر سیاسی کرشمے والی قیادت بڑی سخت جان ہو تی ہی ہے اور اسے کسی بھی طریقے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے سیاست دان کو سب سے بڑا فا ئدہ یہ ہو تا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے الزام اور کڑوے سچ کو ”انتقام ” کا نام دے کے کر ہضم کر جاتا ہے۔اس کے حمایتی بھی ان الزامات کو دل سے نہیں مانتے،اور اسے جتنا دبایا جائے ،وہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔اس پر مقدمات بنائے جائیں تو وہ مظلوم بن جاتا ہے۔ اور اسے جیل بھیجا جائے تو شامِ غریباں سجا کر مظلوم ترین بن جاتا ہے اس کی مظلومیت اس کے سارے اعمال پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اور ووٹروں کے جذبات کو ابھار کر اسے ہیرو کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔
الزامات سچ بھی ہوں، اور انہیں شواہد سے سچ بھی ثابت کیا جائے تو بھی اس کے ووٹ بنک پر معمولی سا اثر پڑتا ہے۔اس کا زیادہ تر حصہ انتقام کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق نواز شریف کو مکھی کی مانند دودھ سے باہر نکالنا ممکن نہیں ہو گا۔
اگر وہ عدالتوں میں مقدمات لڑیں اور عوامی عدالت میں بھی اپنا مقدمہ پیش کرتے رہے تو اس سے وقت کے ساتھ ساتھ الزامات کا گہرا تا ثر زائل ہو جائے گا۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ قدرت تالاب کوصاف کرنے کے لئے حرکت میں آجائے اور تمام سیاسی چالیں ناکام ثابت ہو جائیں، فی الوقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ ” بازیچہء اطفال ہے میرے آگے۔۔ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے۔