اسلام آباد (جیوڈیسک) ایل این جی کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا گیا۔
نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ٹرمینل کے معاملے میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب روپے نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔
نیب حکام کی جانب سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا۔
نیب حکام کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
احتساب عدالت کے جج نے شاہد خاقان عباسی مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ جس پر شاہد خاقان عباسی نے کہا میں چاہتا ہوں 90 روزہ جسمانی ریمانڈ دیں تاکہ نیب کو ایل این جی کیس سمجھا دوں کیونکہ ابھی تک نیب کو ایل این جی کیس سمجھ نہیں آیا۔
جج محمد بشیر نے مسلم لیگ ن کے رہنما سے پوچھا کہ آپ کے وکیل کہاں ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا میں خود اپنا وکیل ہوں۔
شاہد خاقان عباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ گھر سے پرہیزی کھانا لانے کی اجازت دی جائے، جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا نیب والے آپ کو پرہیزی کھانا بنا کر دیں گے۔
عدالت نے نیب حکام کی جانب سے شاہد خاقان عباسی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو 13 روز کے لیے نیب کے حوالے کر دیا جس کے بعد نیب حکام شاہد خاقان عباسی کو اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہو گئے۔
گزشتہ روز شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کی پریس کانفرنس میں شرکت کے سلسلے میں احسن اقبال کے ساتھ لاہور جارہے تھے، نیب نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو لاہور جاتے ہوئے ٹول پلازہ پر روکا اور انہیں ٹھوکر نیاز بیگ سے گرفتار کرکے ساتھ لے گئے۔
بعدازاں نیب نے اپنے اعلامیے میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ایل این جی کیس میں گرفتاری کی تصدیق بھی کردی تھی۔
نیب ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سابق سیکریٹری پیٹرولیم عابد سعید کے وعدہ معاف گواہ بننے پر شاہد خاقان کی گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا تھا، شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کا جمعرات کو نیب میں پیش نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں پہلے وزیر پیٹرولیم رہے اور پاناما کیس میں نوازشریف کی نااہلی کے بعد انہیں وزیراعظم بنایا گیا۔