وزیرا عظم پاکستان عمران خان نے گذشتہ روز ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک بلاگرز کے ساتھ خصوصی نشت میں ایک انتہائی دلچسپ بات کی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو ابھی حکومت سنبھالے ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا تھاکہ مخالفین نے پیٹنا شروع کر دیا کہ تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہو گئی۔میں ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہوں اور جیسے ہی ملک کو درست راستے پر ڈالتا ہوںایک ہاہا کار مچ جاتی ہے اور مجھ پر ناکامی کی پھبتیاں کَسی جاتی ہیں۔مخالفین کا خیال تھا کہ ہم ملک کو جن مسائل کا شکار چھوڑ کر آئے ہیں شاید نئی حکومت ان کی بلندی دیکھ کر ہانپ جائے گی مگر اب ان کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں کہ عمران خان ملک کو نامصائب حالات کے بھنور سے نکال چکا ہے اور اگر یہ حکومت پانچ سال پورے کر گئی تو مخالفین کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی۔اسی لیے اپوزیشن جماعتوں کی افواہ ساز فیکٹریاں دن رات چل رہی ہیں اورمن گھڑت افواہوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی ناپاک سازش کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے انداز بیاں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کا بیانیہ بالکل حقیقت پر مبنی ہے ۔ان دنوں کچھ صحافتی پنڈت تحریک انصاف کے اندر ایک ایسے فاروڈ بلاک کی نشاندہی کر رہے ہیں جوبظاہر ہوائی ہے۔ ان کے نزدیک اس فارورڈبلاک کو خلائی مخلوق کی آشیر باد حاصل ہے۔ اپنی کہانی کو زور دار بنانے کے لیے وہ من گھڑت ملاقاتوں کے قصے بھی بیان کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔کے پی کے میں جب تین وزراء کو یک جنبش قلم وزارت سے علیحدہ کیا گیا تو سازشی تھیوری پھر سانس بھرنے لگی اور صحافتی پنڈت سینہ ٹھوک کر یہ کہنے لگے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ اختلافات موجود ہیں اور پی ٹی آئی کئی حصوں بخروں میںتقیسم ہو چکی ہے۔
کے پی کے کی اس تبدیلی کو بھی ہوائی فارورڈ بلاک کا حصہ بنایا گیا لیکن اس پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا اس وقت نکل گئی جب تینوں مستعفی وزراء نے اپنے اخباری بیانات میں پارٹی کے ساتھ غیر مشروط وفادادی کا اعادہ کیا۔دو وزراء شہرام خان ترکئی اور عاطف خان وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملے اور انکی غیر متزلزل وفاداری نے فارورڈ بلاک کی کہانیاں تخلیق کرنے والوں کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا بلکہ عمران خان سے وزیر اعلیٰ کے پی کے کو دوبارہ انہیں کابینہ میںلینے کی سفارش بھی کی ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ نظام جمہور کی کمی کوتاہیوں کو ہم ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں اگر صحافتی تجزیوں کا ایک خلاصہ نکال لیا جائے تو وہ ہر ناکامی کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتے دیکھائی دیتے ہیں۔ یہ یقینا درست طریقہ کار نہیںہے اگر کوئی اپنی ذاتی خواہشات کو خبر یا تجزیئے کا نام دے کر پیش کرتا ہے تو اس کو یقینا پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا چونکہ اداروں پر الزامات ا ن کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جس کا جلد یا بدیر نقصان پوری قوم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی ذی شعور قصہ گوئی کو آذادی صحافت کا نام دینے کو تیار نہیں ہو گا۔
میں بھی چونکہ قلم قبیلے کا حصہ ہوں ، ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کو بحران در بحران کا شکار کرنے میں ایک بڑا حصہ اہل قلم کا بھی ہے جو افواہوں کو خبر بنا کر پیش کرنے کو ہنر سمجھتے ہیںحالانکہ یہ انکے منصب کے خلاف ہے ۔ اہل قلم جب قلم کی حرمت کے پاسباں ہوں تو وہ یقینامعاشرے میں انارکی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے نا کہ افواء سازی کے ذریعے ملک میں انتشارکی نئی لہر کو جنم دیں اور ترقی کو جمود کا لبادہ پہنا دیں۔ ہر شخص کی ذاتی پسند نا پسند ہو سکتی ہے اور وہ اسکی تحریر سے کسی نہ کسی صورت جھلکتی بھی ہے لیکن میزان قائم کرنا اور غیر جانبدار رہنا ایک صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
جب وہ اس بنیادی تقاضے سے روگردانی کرتے ہیں تو نہ صرف صحافتی اصولوں کے پرخچے اُڑا دیتے ہیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے رستے میں حائل ہو جاتے ہیںاس لیے ہمیں اپنے ہر درد کا مداوا اسٹیبلشمنٹ پر بے بنیاد الزامات کو نہیں سمجھنا چاہیے۔ملک اس وقت ترقی کرے گااور عام آدمی بھی خوشحالی کا چہرہ اسی وقت دیکھ پائے گاجب تمام ادارے ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کریں گے اور لغو الزامات سے گریز کرینگے۔