آدھی رات ادھر ہے آدھی ادھر ہے رات کا ایک بج رہا ہے اور میں فنا اور بقا کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ مجھ کو مر جانا ہے۔ جیسے سب مر گئے۔ اللہ سبحان تعالی نے جب بابا آدم علیہ اسلام کو بنایا تھا تب سے اب تک، اربوں کی تعداد میں میرے جیسے، اچھے، برے اس دنیا میں آئے اور فنا ہو گے۔
اللہ سبحان تعالی نے اپنے پیغمبر، نبی، بھی اس دنیا سے اٹھا لیے، تو میری، آپ کی، کیا اوقات ہے، میں سوچتا رہا رات گزرتی رہی، اب نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی گی۔ اگر میں اب صبح سے پہلے مر جاوں تو، میرے بچوں کا کیا ہو گا، وہ تو ابھی معصوم ہیں۔
بھر ماں باپ اور میری بیوی کیسے زندگی گزاریں گے سب، آج نہیں تو کل مجھ کو مر جانا ہے، ابھی تو میرے بہت کام باقی ہیں، مجھ کو صحافی بننا ہے، نام کمانا ہے، ابھی تو دولت کمانی ہے اپنی غربت دور کرنی ہے۔
ماں باپ کو حج کروانا ہے، میں اپنی ضرورتیں گنتا رہا اور سوچا کہ وقت نہیں ہے جو کرنا ہے جلدی جلدی کر لوں۔ اس دنیا میں آدمی آرہے ہیں اپنا اپنا وقت گزار کر جا رہے ہیں، جون ایلیا کب یاد آئے۔
ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم بے خبر آئے ہیں بے خبر جاہیں گے کتنے دلکش ہو تم، کتنے دل جو ہیں ہم افسوس کہ ہم لوگ مر جاہیں گے
وہ جوفنا کی حقیقت کو جان گیاپنی سمجھ کے مطابق، سمجھ گے، جوگی بن گے، دنیا تیاگ دی۔ رہبانیت اختیار کر لی۔ قبرستانوں میں جا بسے، جنگل جا رہے۔ دنیا ان کے پیچھے، مگر کیا یہ دنیا کی ضروتوں سے بے نیاز ہو گے، جب تک بھی زندہ رہے، دنیا کی چیزوں کے محتاج رہے بے شک محدود پیمانے پر یعنی یہ بھی دنیا دار ہوئے ذرہ کم سہی، ضرروت تو ہوتی ہے نا اور دوسری طرف وہ جو دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے، حرام وحلال، جائز و ناجائزکی پرواہ کیے بنا مال و دولت اکھٹا کرتے رہے، کیے جاتے ہیں، آخر قبر کی مٹی ان کا پیٹ بھرتی ہے۔
Asif Zardari
فنا سے وہ بھی نہ بچ پائے نہ بچ پائیں گے، دونوں طرح کے کردار ہمارے آس پاس ہیں، فنا دونوں کا مقدر، مرنے کے بعد دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔ میرے دادا اور ضیاالحق، اب برابر ہیں، کل میں اور صدر آصف زرداری فنا ہونے والے ہیں۔ یہ جو آخرت کو ہم بھولے ہوئے ہیں شائد سوچتے ہیں ایسا ہی سدا رہے گا اس سے بڑی بے و قوفی اور کیا ہو گی۔
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
پھر سوچ کے کئی رخ ہو جاتے ہیں، رات گزرتی گی، میں سوچتا رہا، سوچتا رہا سوچ کی رفتار بہت تیز تھی۔ اصل چیز اعتدال ہے، ہمارا تو دین ہی اعتدال ہے۔ دنیا اور دین دونوں رہبانیت غلط، دنیاداری غلط، حقوق اللہ ،حقوق العباد دونوں لازم، یہ نہیں کہ حقوق العباد کو پس پشت ڈال دیا جائے۔
یاحقوق اللہ کو ۔یہاں ہر شخص دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے در پے ہیں، ایک دوسرے کے حقوق غضب کر رہے ہیں۔ ہم کو اپنا طرز فکر بدلنا ہو گا۔ سوچنا ہو گا تبھی تو قران میں 750 مرتبہ غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم کو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے تیاری کرنا ہو گی۔
بڑی آسان ہے بس سوچ بدل لیں۔ عمل خود بدل جائیں گے۔ یہ کتنی عام سی بات تھی مگر میں نے اس سے پہلے اس طرح نہ سوچا تھا۔ اس بات کا یقین تھا مگر نہیں تھا، حق الیقین نہیں تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ چیخ چیخ کر سب کو بتاوں وریکا۔میں نے پا لیا۔ زندگی کا راز اعتدال میں ہے۔ ہر کام ہر سوچ، ہر فعل، محبت، نفرت، کھانے پینے، سونے جاگنے میں اعتدال۔بشکریہ (وائے سی سی پی)