جماعت اسلامی ایک ایسی تنظیم ہے جن نے امت مسلمہ کو بھولا ہوا سبق یاد کرایا۔ اس کا قیام ١٩٤١ء لاہور شہر ہوا۔ جماعت اسلامی نے مدینہ کی اسلامی ریاست جیسی ”حکومت الہیّا” قائم کرنے کا بیڑا اُٹھا۔ اس کے کارکن ہر سال یہ ہی سبق یاد رکھنے کی غرض سے جماعت اسلامی کا یوم تاسیس مناتے رہتے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ وحی کی روشنی کے تحت رسولۖ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مدینہ کی اسلامی فلاحی جہادی ریاست وجود میں آئی۔ سارا عرب شرک اور دوسری خرابیوں سے توبہ کر کے اسلام کے بابرکت نظام میں آ گیا۔ اللہ کے رسول ۖ نے اللہ کی منشا اور اللہ کے احکامات کے مطابق ایک رول ماڈل انسانوں کے سامنے پیش کر دیا ۔ اسی رول ماڈل پر چلنے میں دنیا کی فلاح ہے۔اس میں مسلمانوں کے آپس کے معاملات غیر مسلوں،جن میں یہود و نصارا،مجوسی ،صابی اورمشرکوں سے ڈیل کرنے کے طریقے بیان کر دیے گئے۔ حجة الوداع کے موقعہ پر رسولۖ اللہ نے ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کے اجتماع میں انسانیت کو آئیدہ ا لائحہ عمل بھی بتا دیا۔رسول ۖ اللہ نے پہلے اللہ کی کبریائی بیان کی پھرفرمایا جاہلیت کے تمام دستور میرے پا ئوں کے نیچے ہیں،عربی کو عجمی سفید کو سیاہ پر کوئی فضلیت نہیں مگر تقویٰ،مسلمان بھائی بھائی ہیں،جو خود کھائو غلاموں کو کھلا ئو ،جاہلیت کے تمام خون معاف،سود پر پابندی،عورتوں کے حقوق،ایک دوسرے کا خون اور مال حرام،کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید،حقدار کو حق،لڑکا اس کا جس کے بستر پر پیدا ہوا، اس کے بعد ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کے سمندر کو آپ ۖنے فرمایا میر ے بعد کوئی بنی نہیں آنا ہے۔ اللہ کی عبادت کرنا پانچ وقت کی نماز رمضان کے روزے زکوٰة اللہ کے گھر کا حج اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا جنت میں داخل ہو گے ۔تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے صحابہ نے کہا آپۖ نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا اور حق ادا کر دیا۔یہ سن کر رسولۖ اللہ نے شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا اے اللہ آپ بھی گواہ رہیے۔اس خطبے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا” (المائدہ۔٣)۔ مدینہ کی اسلامی ریاست مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے۔ اسے خلفائے رشدین نے اسی طریقے سے چلایا ۔ جیسے رسولۖ اللہ نے متعین کیا تھا۔ خلفائے راشدین کے عہد میں روم اور ایران یعنی قیصر اور کسرا کو شکست ہوئی۔
مگر اس کے بعد اُس وقت خرابی پیدا ہوئی جب خلافت ملوکیت میں تبدیل کر دی گئی۔ اس کو بانیِ جماعت اسلامی نے اپنی مشہورکتاب ” خلافت و ملوکیت” میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ موددودی نے کافی سوچ بچار اور گہری فکر کے بعد سوچا ،کہ مسلمانوں کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ پھر سے اپنی اصل سے جوڑ جائیں۔ ظاہر ہے یہ کام مشکل ہے۔ مگر مطلوب بھی یہ کام ہے۔جماعت اسلامی عوام سے وہی کہتی ہے جو قرآن کے احکامات ہیں۔جماعت اسلامی کہتی ہے ،شرک کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جماعت اسلامی حکومت الہیٰا قائم کرنے میں کسی سے اجر نہیںمانگتی۔ اس کا اجر اللہ کے پاس محفوظ ہے۔ جماعت اسلامی امین ہے۔ کرپشن سے پاک ہے۔ ا ب تو اس کی صدیق پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی کر دی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے آخری پیغمبر ۖ ہیں اور یہ دین آخری دین ہے قیامت تک نہ کوئی نیا نبی آئے گا نہ نیا دین آئے گا۔ اب اس دین کو دوسری قوموں تک پہنچانے کا کام امت محمدی ۖ کرے گی۔ لہذا ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم اپنے اعمال ٹھیک کریںاسلام کے دستور میں جتنی بھی انسانوں کی خواہشات داخل کر دی گئیں ہیں انہیں ایک ایک کر کے اپنے دستو ر عمل سے نکال دیں اور اپنے ملکِ پاکستان میں ”حکومت الہےّا” جس کو نظام مصطفےٰ یا اسلامی نظام(جو بھی نام ہو) اس کو قائم کریں۔
اس بابرکت نظام کو ساری دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں۔مولانا مودودی جماعت اسلامی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک موقعہ پر کہا تھا” قرآن اور حدیث کی دعوت کولے کر اُٹھو اور ساری دنیا پر چھا جائو” حکومت الہیّا کے دستور کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ جنت کے حق دار بنیں ۔ جہنم کی آگ سے نجات پائیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جنت میں داخل ہوں جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ جہاں نہ موت ہو گی نہ تکلیف ہو گی۔ اللہ مومنوں سے راضی ہو گا۔ اور یہی کامیابی ہے۔
جماعت اسلامی کے یونٹ اپنے اپنے طورپر جماعت اسلامی کا یوم تاسیس مناتے ہیں۔ ایک یوم تاسیس کے موقعہ پر جماعت اسلامی پاکستان کے جرنل سیکر ٹیری امیر العظیم صاحب ،جو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ رہ چکے ہیں اور نوجوان ہیں اور سیاست کے دائو پیچ سے اچھی طرح واقف ہیں کہا کہ یہ خوش آیند بات ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کو مرکزی قیادت اسلامی جمعیت طلبہ ہی فراہم کر رہی ہے۔ مثلاًسابق امیر سید منور حسن صاحب، موجودہ امیر سراج الحق صاحب،موجودہ سیکر ٹیری جرنل امیر العظیم
٢ صاحب، موجودہ نائب امیر لیاقت بلوچ صاحب،موجودہ نائب امیر سید راشد نسیم صاحب وغیرہ سارے صاحبان اپنے اپنے وقتوں میںاسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم ا علیٰ رہ چکے ہیں۔ یہ حضرات پاکستان کے چپے چپے سے واقف ہیں۔انہوں نے اپنی جوانیاں اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے وقف کی ہوئی ہیں۔ ماشاء اللہ نوجوان اور تازہ دم ہیں۔ان ہی سے کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ امیرالعظیم نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب ١٩٧٠ء میں جماعت اسلامی کے ٢٩ سال مکمل ہوئے تو امیر جماعت اسلامی سید ابواعلیٰ موددی صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ١٩٢٣ء میں مسلمانوں کی خلافت عثمانی کو ختم کیا گیا۔ ہندوستان میں خلافت عثمانیہ کے دوبارہ اجرا کے لیے تحریک چل رہی تھی۔ اس کے ساتھ تحریک آزادی پاکستان بھی زوروں پر تھی۔اس دوران گاندھی نے کہا تھا کہ ہم مسلم لیڈر شپ سے بات نہیں کریں گے۔ بلکہ عام مسلمانوں سے گفت شنید کرکے انہیں واپس ہندو بنائیں گے۔ہندوستان کے مسلمان اسلامی عثمانی خلافت کے لیے فنڈجمع کرتے تھے۔ جبکہ کہ عثمانی قومیت کے نام پر لڑ رہے تھے۔ قوم پرست کمال اتاترک نے ترکی میںاسلام کی ساری نشانیاں مٹا کر قومیت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔تحریک آزادی ہند کا مطالعہ کیا تو سوچا کہ جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے تو ہندو مسلمانوں کو غلام بنا لیں گے۔اسی سازش کو محسوس کرتے ہوئے کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ جسے علامہ اقبال شاعر اسلام نے پسند فرمایا۔رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے مسلمانوں کو سبق یاد کرایا۔
اسکے لیے رسالہ ترجمان القرآن میں مضامن شائع کرنے کا سلسلہ جاری کیا۔ مسلمانوں میں مغربی سوچ کو زائل کرنے کی کوشش کی۔تحریک پاکستان کامیاب ہو جائے گی تو ہندوستان میں رہ جانے والوںمسلمانوں کا کیا ہو گا۔مولانا مودودی نے ١٩٤١ء سے ١٩٤٧ء تک پٹھان کوٹ جمال پور میں رہے۔پاکستان بننے کے بعد اس کو اسلامی کی بنیاد پر چلانے کے لیے اسلامی لٹریچر اور کارکن تیار کیے۔١٩٤٧ء میں پاکستان بنا تو جماعت اسلامی نے تعلیم اداروں، فیکٹریوںاورسیاست میں سیکولرسٹو ںاور کیمونسٹوںکو شکست فاش دے کر اسلامی آئین میں قراداد مقاصد شامل کروائی۔ میں جماعت اسلامی کے کارکنوں سے کہتا ہوں کہ وہ جماعت اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ اپنے بچوں اور خاندان کو اس سے روشناس کرائیں اور اسے پھیلائیں۔ جماعت اسلامی کے سدا بہار ایک کارکن جب اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کے ایک دوست نے ان کے بچوں سے کہا کہ با با جی کی ایک پوٹلی ہمارے ہاںہے اُسے لے جائیں ۔
جب پوٹلی کو کھولا گیا تو اس میں جماعت اسلامی کے پمپلٹ اور کچھ اعانت کاحساب کتاب نکلا تھا۔ہمیں ایسی پوٹلیاں چھوڑ کے جانا چاہیے نہ کہ جائیدادیں۔اب سید مودودی اور سید قطب کی صدی ہے۔اس لیے جماعت اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کا ١٩٤١ء میں لاہور میں ٧٥ افراد اور ٧٥ رونے ١٤ آنے کے اثاثے سے آغاز ہوا۔چار شعبوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔تعلیم،نشرو اشاعت،تنظیم اور تربیت۔٢٦ اگست ١٩٤١ء میں ٧٥ آدمی ایک داستان تھے۔بندگی خدا اور پیروی رسول ۖ کا ماٹو تھا۔سیدمودودی نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ منافقت چھوڑ دو۔ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو۔اس وقت لوگ انگریزی نظام حکومت کی خرابیاں نہیں جانتے تھے۔قانون اگر انگریزی ہے تومسلمان اس کے مدد گار اور محافظ بنے ہوئے ہیں۔ نظام حکو مت اگر انگریزی ہے توچلا نے والے مسلمان ہیں۔ سید مودودی نے اسی کو منافقت کہا تھا۔ مسلمانوں کو یاد کرایا کی یہی منافقت ہے اسے بدلو اور اسے چھوڑو ۔ قرآن اور حدیث کی دعوت کو پکڑو اور دنیا پر چھا جائو۔١٩٤١ء میں یہ کام مشکل تھا۔کامیابی نہ ہوئی۔٧٥ لوگوں نے سید مودودی کا ساتھ دیا اور امیر جماعت اسلامی چنا۔جس وقت کہا جاتا تھا کہ اسلام کا نظام ِحکومت سے کیا لینا دینا ہے ۔
یہ بے دین لوکوں کا مشغلہ ہے۔سید مودودی نے اس کے جواب میںدنیا میں اسلام نظام ِحکومت کو روشناس کرایا۔یہ کام دینیات اورخطبات کی کتابوں نے کیا۔کتاب دنیات کا ساری دنیا کی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ امریکی باکسر کلے نے اس کا انگریزی ورژن جو پروفیسر خورشید احمد نائب جماعت اسلامی پاکستان نے کیا”ٹو ورڈز انڈر اسٹیڈنگ اسلام”(to word under stading islam) (پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا۔ سیدمودودی نے سنت کی آئینی حیثیت کتاب لکھ کر منکرین حدیث اور بڑے اسلام، دشمنوں کا منہ بند کر دیا۔اس کو پڑھ کر پاکستان کے مشہور قانون دان، اے کے بروہی صاحب اسلام کے پر امن اور سلامتی والے دین کو نافذ کرنے کے مودودی کا ساتھ دینے پر تیار ہوئے تھے۔ اور ایک تاریخی بات کی تھی کہ جب اللہ جب قیامت میں مجھے میرے اعمال کا پوچھ گا میں کہوں گا میں مودودی کی رفاقت لے کر آیا ہوں۔ سود،پردہ اور خلافت ملوکیت کتابیں تصنیف کر کے سید مودودی نے اسلامی ریاست میں در آنے والی کمزرویوںکی نشان دہی کر کے آئندہ کی صحیح سمت کا راستہ بتایا۔ جماعت اسلام کی جدو جہد اور لٹریچر نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ انسانیت کی فلاح صرف اور صرف اسلامی نظام حکومت یعنی حکومت الہیا میں ہے۔جس میں مسلم اور غیر مسلم کے انسان ہونے کے ناتے حققوق برابر ہیں۔ انگریزوں کے جانشین پاکستان کے حکمرانوںنے اس نیک کام کرنے کی پاداش میں جماعت اسلامی کے بانی مودودی کو پہلے ١٩٤٨ء میں ٢٥ ماہ پھر ١٠ ماہ اور آخر میں پوری شوریٰ کو گرفتار لر لیا۔ شاہر اسلام، اکبر الہ آبادی کے مطابق:۔ رقیبوں نے رپٹ لکھائی جا جا کے دھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
٣ جماعت کے تعلیمی اداروں کو سیکولر،آزاد اور روشن خیال ذوالفقار علی بھٹو نے قومی تویل میں لیا۔ جماعت اسلامی نے الطاف حسن، عبدالقادر، مجیب الرحمان شامی، سید صلاح الدین ،ارشاد حقانی صاحبان اور ان جیسے درجوں اسلام کے شیدائی پیدا کیے۔جماعت نے میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، منور حسن اور سراج الحق صاحبان جیسے درویش صفت رہنما دیے۔جماعت اسلامی کے پروفیسرر غفور احمد کی کوششوں سے ١٩٧٣ء کا اسلامی آئین منظور ہوا۔سیدمودودی نے اسلام کی طاقت سے خدا بیزار کیمونسٹ سویٹ یونین کو ماسکو، سرمایہ درانہ نظام کے حامی امریکا کو واشنگٹن اور لندن اور قومیت کے پرچارک کو جرمنی میں چیلنج کیا۔ کیمونسٹ روس توختم ہوا۔ اب سرمایادارانہ نظام کی باقیات کو ختم ہو نا ہے ۔ پھررہے گا نام اللہ کا!۔ لوگ جماعت اسلامی کی کامیابی کو پارلیمنٹ کی سیٹوں سے جانچتے ہیں۔ کیا یہ ساری کامیابیاں نہیں ہیں۔ انشاء اللہ ایک دن آئے گا جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں بھی اکثریت حاصل کر لے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان کی طاقت ور پوزیشن حاصل کر چکی ہے۔ کئی شعبوں میں ترقی کرتی ہوئے، اپنے جاندار اسلامی نظام زندگی کے بیانیہ ، اپنے تعین کردہ ا یجنڈے اور اپنے جھنڈے کے تحت ماس موومنٹ بن کر انتخابی مورچہ بھی فتح کر لے گی۔ ایسی ہی یوم تاسیس پاکستان اور دنیا میں کے مختلف حصوں میں جماعت اسلامی کے کارکن ہر سال مناتے ہیںتاکہ سید مودودی کا یاد کرایا ہو ا سبق تازہ ہوتا رہے۔ان شاء اللہ۔