تحریر : سجاد علی شاکر 23 مارچ 1940ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اقبال پارک میں قرارداد قیام پاکستان منظور کی گئی جس میں مسلمانان ہند پاک کیلئے آزاد وطن پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مسلمان ہر گز ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔
ہندو اور مسلمانوں کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے جن کی بنیاد باہم دگر متضاد خیالات اور نظریات پر ہے۔ ایسی اقوام کو ایک واحد مملکت میں رہنے پر مجبور کرنے سے جبکہ ایک قوم آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں اور دوسری اقلیت میں ہے تو بے چینی اور کشمکش میں یقینا اضافہ ہو گا۔ مسلمان قوم کا اپنا الگ وطن، علاقہ اور مملکت ضرور ہونی چاہیے جہاں ہماری قوم اپنی پسند اور امنگوں کے مطابق اور اپنے نصب العین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی روحانی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کو بہترین اور بھرپور طریقے سے ترقی دے سکے”۔آج ہم 23 مارچ 2016ء کو76 واں یوم پاکستان کی تقریب منا رہے ہیں۔
پاکستان کی اساس اور بنیاد یقینا دو قومی نظریہ ہے۔ ہمارے قائدین نے کہا ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ یہی نظریہ پاکستان ہے۔ اسی پر ہندوستان میں ایک الگ مسلم ر یاست قیام پذیر ہوئی۔قائد اعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے مقدمہ کی وکالت کا محاذ سنبھالا اور اپنی کامل دیانت، جرات، تدبر اور اخلاص سے قیام پاکستان کے مخالفین کو ہر قدم پر شکست دی۔
Founder of Pakistan, Quaid e Azam
دو قومی نظریے کے حق میں قائد اعظم کے جو دلائل تھے اس کا جواب بڑے سے بڑا ہندو لیڈر بھی نہیں دے سکتا تھا۔ قائداعظم کے نزدیک ہندو اور مسلمانوں میں صرف دو مذہبوں کا فرق نہیں تھا بلکہ ان دونوں کی ثقافت، معاشرتی زندگی، ضابطہ حیات اور قوانین میں بھی فرق تھا۔ قرارداد پاکستان کی منظوری سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہوا۔ اور وہ قائداعظم کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف گامزن ہو گئے یہ اس قیادت اور قوم کے اتحاد ہی کا معجزہ تھا کہ سات سال قلیل مدت میں مسلمانان برصغیر نے حصول پاکستان کی منزل سر کر لی سے آج کے روز ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر قیادت نیک اور پرعزم ہاتھوں میں اور ہماری صفوں میں اتحاد و یکجہتی ہو تو ہمارے قومی وجود سے آئندہ بھی تاریخی اور سیاسی معجزات کا ظہور ممکن ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تو اس کی سیاست، معیشت اور معاشرت کی تعمیر و ترقی کیلئے ایک وژن بھی دیا۔ یہ وژن دین اسلام اور سیرت رسول اکرم کے گہرے مطالعہ پر مبنی تھا۔
اس کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ہی خدائے بزرگ و برتر نے انہیں اپنے پاس بْلا لیا۔ ان کے دست راست نوابزادہ لیاقت علی خان کو بھی منظر سے ہٹا دیا گیا۔ بعدازاں زمام اقتدار ان عناصر نے سنبھال لی جو برطانوی سامراج کے پروردہ تھے۔ انہوں نے کبھی عسکری اشرافیہ کے دامن میں پناہ لے کر تو کبھی افسر شاہی سے گٹھ جوڑ کر کے اس وژن کو بروئے کار آنے سے روکے رکھا۔ انہیں یہ خوف دامن گیر تھا کہ اگر پاکستان میں قائداعظم کے وژن پر عملدرآمد ہو گیا تو عوام کو ان کا حقِ حاکمیت واپس مل جائے گا۔ ایسا ہونا ان عناصر کے مفادات سے متصادم تھا کیونکہ وہ خود کو آقا اور قوم کو غلام تصور کرتے تھے۔قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس پر مسلمانوں اور ہندوئوں بشمول سکھ قوم کا ردعمل یکسر مختلف تھا۔ پورے ہندوستان میں اس قرارداد کا مسلمانوں نے انتہائی پرجوش انداز میں خیرمقدم کیا جبکہ ہندوئوں اور سکھوں نے اس کی شدید مذمت کی۔
مسلمانوں اور ہندوئوں کے اس متضاد ردعمل سے قائد اعظم کے اس موقف کی صداقت ازخود ثابت ہو گئی کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔ قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن گئی اور مسلمان قوم میں مسلم لیگ کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف تو مسلمانوں کو اپنی آزاد مملکت کی شکل میں ہندوئوں کے تسط سے نجات پانے کی خوشی تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کیلئے تسکین واطمینان کا باعث یہ بات بھی تھی کہ انہیں یہ یقین تھا کہ آزاد پاکستان میں وہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دے سکیں گے جو تمام مسلمانوں کیلئے عدل ومساوات اور خوشحالی کا بھی ضامن ہو گا۔ اس تاریخی مرحلے پر برصغیر کے مسلمانوں کی یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ انہیں قائداعظم جیسا مخلص اور بے لوث لیڈر میسر آ گیا جو سیاست کے فن میں بھی ماہر تھا اور جس کو نہ خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی جھکایا جا سکتا تھا۔
Allama Iqbal and Quaid e Azam
قائداعظم کی سیاست میں ریاکاری نہیں تھی۔ ان کے عزم وارادہ کی پختگی کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ قائد اعظم کی بصیرت اور فراست کا مقابلہ بھی گاندھی اور نہرو کے بس کی بات نہیں تھی۔ علامہ اقبال نے بجا طور پر قائداعظم کے بارے میں کہا تھا کہ ”آج کے ہند میں جناح واحد مسلمان ہیں جن سے ملّت بجاطور پر یہ توقع کر سکتی ہے کہ وہ اْس طوفان میں مسلمانوں کی بے خطر رہنمائی کر سکتے ہیں جو شمالی مغربی ہند بلکہ شاید سارے ہندوستان میں آنے والا ہے”۔میں آج 23 مارچ کو خاص طور پر اپنی نوجوان نسل سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ دو قومی نظریے کو کبھی فراموش نہ کریں کیونکہ یہی نظریہ دراصل تحریک پاکستان کی روح اور قیام پاکستان کی اساس ہے۔
یہ تاریخی دن مناتے ہوئے ہم نیک نیتی سے جائزہ لیں کہ ہمارے وطن عزیز پاکستان کے سال 1971ء میں دو ٹکڑے کیوں ہوئے؟ ملک میں دہشت گردی سے معصوم جانوں کو کیوں شہید کیاجارہا ہے ؟ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی آرٹیکل نمبر 3اور9 کے تحت ملک میں استحصالی نظام ختم ہوگیا ہے ؟ کیا غریب عوام کو ریاست سے بنیادی ضروریات بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ، روزگار اور رہائشی ضروریات مہیا کردی گئی ہیں؟ کیا سماج میں اسلامی اصولوں کے مطابق ملک میں مساوات کے قیام اور امیر و غریب کے بے پناہ فرق دور کرنے اور قانون کے مطابق سب کو مساوی سلوک مہیا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
آئیے یوم پاکستان کے مبارک موقعہ پر مل کر عہد کریں کہ ہم پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فرمودات کے مطابق اسے مثالی اسلامی جمہوریہ ی فلاحی مملکت بنا کردم لیں گے جہاں عام شہری کو نہ صرف قانونی بلکہ سماجی انصاف مہیا ہو اور قومی خدمت کرنے والوںکی سماج میں عزت ہو اور ہر بچے کو مفت تعلیم اور نوجوان کو با مقصد روزگار کی فراہمی یقین ہو۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر فنانس سیکرٹری پنجاب کالمسٹ کونسل آف پاکستان لاہور sajjadalishakir@gmail.com 03226390480