تحریر : سجاد علی شاکر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اپنے اعلی کردار، علم محنت اور مسلمانان ہند و پاک کو منظم کر کے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کو کامیاب فرمایا۔ جس کا تصور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیا تھا۔آج پاکستان کے داخلی حالات دیکھ کر ان کی روح تڑپ رہی ہو گی کہ ہمارے وطن عزیز میں ـ1معصوم طالبعلموں کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے قتل کیا جا رہا ہے۔2۔ وطن عزیز کی مشرقی پاکستان سے علیحدگی سے وہ تقسیم ہو گئے ہیں۔3۔ ملک میں کمسن بچوں سے مشقت اور جبری محنت کی لعنت عام ہے۔ ـ4 نوجوان طبقہ بے روزگاری کا شکار ہے۔5۔ ملک میں تا حال نو آبادیاتی دور کا جاگیرداری نظام قائم ہے۔ اسلامی مساوات کی بجائے سماج میں امیرو غریب کا بے پناہ فرق بڑھ رہا ہے۔6۔ ملک کے 51 فیصدی بچے والدین کی غربت کی وجہ سے پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔7۔ وفاقی وزیز خزانہ حکومت پاکستان کے بقول ملک میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع کرا رکھے ہیں اور ٹیکس ادا نہیں کر رہے جبکہ ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ قومی بجٹ کا کثیر سرمایہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے۔مجھے یہ واقعہ اپنے حکمرانوں کے رویے دیکھ کر بے اختیار یاد آ جاتا ہے۔ حکمران آج کے ہوں یادوررفتہ کے، انکے رویے ایک جیسے ہیں۔ عوام کو ان کا حق دیتے ہوئے انکی جان پر بن جاتی ہے۔
اگر بادل نخواستہ کوئی ریلیف دیں تو خود کو شہزادہ عالم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیںیہ حکایت کئی بار پڑھی اور سنی کہ گھوڑے پر سوار بادشاہ سلامت بغیر پروٹوکول کے شکار کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ راوی نے یہ نہیں بتایا کہ ان دنوں شکار تیر سے کیا جاتا تھا یا بندوق سے۔ بہرحال بادشاہ سلامت باغ کے قریب سے گزر رہے تھے کہ باغبان سے پانی پلانے کو کہا۔ باغبان نے ایک انار توڑ کر نچوڑا جس سے پیالہ بھر گیا۔ ذائقہ بھی زبردست تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ کیوں نہ اس زرخیز باغ کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔ اس فیصلے پر عمل تو کنگ سیکرٹریٹ میں پہنچنے پر ہی ہونا تھا۔ اب تو بادشاہ سلامت شکار کیلئے جا رہے تھے۔ شکار بھی پتہ نہیں شیر کا کرنا تھا’ ہرن کا’ مرغابیوں کا کبوتر و فاختہ وغیرہ کا۔ بادشاہ کو اناروں کا ذائقہ اس قدر پسند آیاکہ واپسی پر باغبان سے اسکی فرمائش کی۔اس نے ایک انار توڑا اسے نچوڑا لیکن پیالہ بھر نہ سکا۔ دوسرے اور پھر تیسرے انار سے پیالہ بھرا۔ بادشاہ نے حیرانی سے اس سے وجہ پوچھی تو باغبان شاید خدا کی حکمتوں کے کچھ راز سمجھتا تھا۔ اس نے کہا بادشاہ کی نیت میں کھوٹ آ گیا ہے۔ اس پر بادشاہ کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے فوری طور پر اس باغ کو قومی ملکیت میں لینے کا فیصلہ دل سے نکال دیا۔
اس حکایت کو عموماً حکمرانوں کی نیت کے اثرات کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ نیک نیتی سے شیریں ثمر ملتا ہے جبکہ بدنینی کے بْرے اثرات سامنے آتے ہیں۔ انار فیم بادشاہ ایک بار پھر شکار کیلئے نکلا۔ پھر پیاس لگی۔ اب وہ جنگل میں ایک جھونپڑی کے قریب سے گزر رہا تھا۔ بادشاہ نے پانی کیلئے جھونپڑی کے دروازے پر دستک دینے کے بارے سوچا مگر جھونپڑی کا دروازہ ہی نہیں تھا۔ بادشاہ سلامت نے ”ہے کوئی اندر” کہا یا ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالتے ہوئے انگوٹھے جوڑ کر زور سے پھونک مار کر گھگو بجایا۔ جس سے اندر کا مکین باہر نکلا۔ جہاں گھوڑے پر سوار ایک انسان سوالی بن کر پانی مانگ رہا تھا۔ ادھیڑ عمر کے شخص نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھر کر پیش کر دیا۔ پیاس بجھنے پر بادشاہ خوش ہوا۔ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کوئی کام ہو تو بے دھڑک شاہی محل چلے آنا۔ ان دنوں کارڈ کا رواج ہوتا تو بادشاہ سلامت کارڈ سے تھما دیتے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے شکار سے بالکل اسی طرح فرصت نکالی جس طرح ہمارے حکمران بیرونی دوروں سے نکال کر ملکی امور دیکھنے کا تکلف فرماتے ہیں۔
King Court
بادشاہ نے دربار لگایا، اس دوران دربان نے اطلاع دی کہ ایک دیہاتی دربار میں حاضر ہونے کیلئے درخواست گزار ہے۔ کہتا ہے اس نے کچھ عرصہ قبل جنگل میں حضور کو پانی پیش کیا تھا۔ بادشاہ کو یاد آگیا اور فوری طور پر دربار میں حاضری کی اجازت دیدی۔ اس نے آتے ہی عرض کی۔”ظلِّ الٰہی گزارا نہیں ہوتا۔ بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں مدد فرمائیے۔ ”بادشاہ نے خزانے کے نگران کو حکم دیا” ڈیڑھ من گندم، من چاول، پانچ سیر شکر، دو سیر گھی، پاو مرچ ایک چائے کی پْڑی وغیرہ وغیرہ اسکے حوالے کردو۔ یہ شخص غریب اور جہاندیدہ بھی تھا۔ اس نے جان کی امان پانے کی استدعا کرتے ہوئے کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی۔ بادشاہ جس نے ابھی ابھی اپنی دانست میں شہزادہ عالم کی قبر پر لات مارتے ہوئے اسکی غربت دور کی تھی، اسے جان کی امان دیتے ہوئے عرض کرنے کی اجازت دے دی۔ اس نے مزید کہا کہ وہ علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہے۔ بادشاہ نے تالی بجاتے ہوئے تخلیہ کا حکم صادر فرما دیا۔ چند ثانیے میں دربار ہال خالی ہو گیا تو سائل نے عرض کیا ” حضور آپ جدی پشتی بادشاہ نہیں ہیں۔” اس جملے پر بادشاہ طیش میں آگیا اور چلاتے ہوئے کہا اس کا سر قلم کر دومگروہاں کوئی حکم کی تعمیل کرنیوالا نہیں تھا۔
ساتھ ہی اجنبی نے جان کی امان دینے کا وعدہ یاد دلایا تو بادشاہ کا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا۔ پوچھا تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ میرا باپ دادا پردادا سب بادشاہ تھے۔ سائل نے جواب میں کہا کہ آپ نسل در نسل بادشاہ ہوتے تو مہینے کا راشن دینے کا حکم صادر فرمانے کی بجائے میری غربت دور کر دیتے۔ بادشاہ کی والدہ زندہ تھی۔ وہ فوری طور پر اسکے پاس گئے۔ تلوار سونتی ہوئی تھی۔ پورے جلال میں والدہ سے ماجرہ بیان کرتے ہوئے پوچھا سچ بتاو ورنہ گردن اڑا دونگا کہ میں کس کا بیٹا ہوں۔ والدہ نے نگاہیں جھکالیں جس سے بادشاہ اندر سے کانپ گیا۔ خاتون نے کہا بیٹا وہ شخص درست کہتا ہے۔ ہمارے ہاں اولاد نہیں تھی۔ ہم نے تمہیں گود لیا تھا اور اسکی کسی کو خبر نہ ہونے دی۔ تمہارے اصل ماں باپ اسی محل میں تیسرے د رجے کے ملازم تھے۔ کچھ ایسا ہی حال میرے کے ملک کے حکمران اور سیاستدان کا ہیں۔ ملک کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سیاستدانوں سے مبلغ۔/200 ارب ڈالر سوئس بینکوں سے واپس لا کر ملک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی اقتصادی غلامی سے آزاد کر کے قومی صنعت وزراعت کو ترقی دی جائے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قومی ٹیکسٹائل ملز کے افتتاح کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ قومی صنعت کو ترقی کیساتھ ساتھ محنت کشوں کی بہبود کا مکمل خیال رکھا جائے تا کہ خوشگوار صنعتی تعلقات قائم ہوں۔ملک میں رنگ و نسل اور مذہبی فرقہ بندی کی لعنتوں کو ختم کر کے خواتین اور بچوں کی بہبود کیلئے محبت اور اتحاد کو فروغ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی مملکت بنائے لیکن ہمیں دفاعی طاقتوں کو مضبوط کرنے کیساتھ ساتھ اپنے وطن عزیز پاکستان کو اقتصادی، صنعتی، زرعی اور سماجی لحاظ سے ترقی کے مقاصد کی تکمیل کو کامیاب کرنے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہئے۔اللہ تعالی ہمیں ان مقاصد کی تکمیل میں کامیاب فرمائے۔ آمین!
Sajjad Ali Shakir
تحریر : سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480