پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا اور پاکستانیوں کا ترقی یافتہ اقوام میں شمار کیوں نہیں ہوتا اس سازش کے پیچھے کون لوگ ہیں جو یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمیں پستیوں کی طرف دھکیل رہے ہیں اور حکمرانوں کی بے بسی اور بے حسی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ سرعام یہ کہتے اور تسلیم بھی کرتے ہیں کہ کرپشن بہت بڑھ گئی ہے گذشتہ روزجیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات اور سینٹر پرویز رشیدصاحب جو حکومتی ترجمان بھی ہیں فرما رہے تھے کہ اچھے خاصے صحت مند ملک لوٹنے والے چور ڈاکو جیلوں کے ہسپتالوں میں آرام فرما رہے ہیں یہ وہ معلومات ہیں جو ہر کسی کے پاس نہیں کیونکہ ایک شریف انسان جیل جاتا ہی نہیں اگر بدقسمتی سے چلا جائے تو اسے اتنا ہوش ہی نہیں رہتا کہ وہ کسی کے ساتھ پیسے کا کوئی معاملہ طے کرسکے کیونکہ جیل کے احاطہ میں داخل ہوتے ہی ٹھیکیدار نما ملازمین اسکی تلاشی کے بہانے سب کچھ نکال لیتے ہیں اور جیل کے اندر جو کمائو پوت بیٹھے ہوئے ہیں وہ لاکھوں روپے خود بھی کما رہے ہیں اور اپنے سے اوپر بھی کما کردے رہے ہیں منشیات فروش، قاتل اور ڈاکو جیل میں جاتے ہیں ہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں اسکے کے تعلقات اور پیسے کا اندازہ لگانا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی اسکی طاقت کا کسی کو اندازہ ہوتا ہے ہاں اگر کوئی جیل ہسپتال کے بیڈ پر بیماری کے بہانے آرام فرما رہا ہے۔
تو اسکی طاقت کا اندازہ ہمارے حکمرانوں کو بخوبی ہے اسی لیے تو جناب پرویز رشید صاحب نے بڑے دھڑلے سے اس بات کو تسلیم کر تے ہوئے اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے اور جو جانتے بوجھتے اس سسٹم کو تبدیل نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے اس کا مطلب ہے کہ یا تووہ بہت کمزور ہیں یا پھر اس سسٹم کو پروان چڑھانے میں انکی مدد شامل ہے اگر ان باتوں کا وزیر اطلاعات کوعلم نہ ہوتا تویہ اور بات تھی مگر انہوں نے ٹی وی پروگرام میں یہ بتا کر ثابت کردیا ہے کہ انکی حکومت کسی بھی ایسے مسئلہ کو ختم نہیں کرنا چاہتی جس کی وجہ سے ملک میں بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جائیں محکمہ جیل خانہ جات کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات ہیں کہ پڑھنے والے یا تو حیران ہو جائیں گے یا ہنسیں گے کیونکہ جن کو نہیں معلوم وہ حیران ہو نگے اور جنہوں نے یہ سارا نظام دیکھا ہوا ہے وہ ہنسیں گے کہ اس میں کونسی نئی بات ہے مگر پھر بھی اپنے پڑھنے الوں کی خدمت میں عرض کردوں کہ جیل کے اندر مجرم کو وہ سہولت میسر ہوتی ہے جو اسے باہر رہتے ہوئے بھی میسر نہ ہو سب سے پہلی اور بڑی سہولت یہ ہے۔
World Bank
جیل کے اندر اسے دشمن کا ڈر خوف نہیں ہوتا بلکہ وہ جیل کے اندر رہتے ہوئے باہر اپنے پورے گروہ سے رابطے میں رہتا ہے اور اسکے حکم پر ایسے عمل ہوتا ہے جیسے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے حکم پر ہماری حکومت فوری عمل کرتی ہے جیل کے اندر ایسی ایسی منشیات باآسانی دستیاب ہیں جو باہر میسر نہیں ہوتی اور اندر کی کمائی سے باہر والے موج مستی بھی کررہے ہوتے ہیں اور یہ سب باتیں حکومت کے ایک وزیر اطلاعات بخوبی جانتے ہیں کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ جو حکومت چند ایکٹر میں پھیلی ہوئی جیل کے اندر کا نطام درست نہیں کرسکتی جہاں مختلف جرائم میں ملوث چند ہزار افراد قید ہیں اور پورا ملک تو بہت بڑا ہے جسکی آبادی تقریبا 22 کروڑ کے قریب قریب ہوگی اور جس میں ادارے بھی بہت بڑے بڑے ہیں جہاں ملزم اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں جہاں لوٹ مار بھی کھلے عام ہورہی ہے تھانے بھی کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں ایک پٹواری سے لیکر ہر اعلی عہدے دار کے دامن پر کرپشن کے چھینٹے ہیں جہاں غربت گھروں سے نکل کر کھلے میدانوں تک پہنچ چکی ہے بے روزگاری اور جہالت ہماری جڑوں میں بیٹھ چکی ہے۔
وہاں پر ایسے حکمران ملک کو سنوارنے میں کیسے کامیاب ہونگے جن سے ایک جیل کا نظام درست نہیں ہوسکتا کیا ہم نے اپنی تباہی اپنے ہاتھوں ووٹ دیکر نہیں خرید لی کیا پاکستان میں ایسا کوئی شخص کوئی لیڈر یا کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو آگے بڑھے اور ملک میں پھیلی ہوئی کرپشن اور لاقانونیت کا صفایا کردے عوام نے پیپلز پارٹی کو بھی آزما لیا ، چوہدری برادران کو بھی دیکھ لیا، عمران خان کو بھی دیکھ رہے ہیں اور نواز شریف کوبھی بار بار آزما لیا ہے مگر سب نے مایوس کیا متعدد بار فوج آئی مگر اس نے بھی کچھ نہیں کیا ہر حکومت کے جانے کے بعد ملک پہلے سے بھی پسماندہ ہوتا گیا قرضوں کا بوجھ ہماری کمر توڑ رہا ہے، خود کش دھماکوں نے ہمیں مفلوج کر دیا ہے غربت، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا ہے سمجھ نہیں آتی کہ اب کس کو آزمائیں کیا کسی ایسے شخص پر اعتبار کرلیا جائے جو خود تو پاکستان سے میلوں دور بیٹھا سونے کے چمچ سے نوالے لے رہا ہے اور تماشہ پاکستان میںلگا رکھا ہے یا ایک بار پھر انہی پراعتبار کرلیا جائے جنہوں نے پہلے ہی ہمیں ڈبورکھا ہے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔