چودہ اگست کو قوم حقیقی آزادی کی منتظر

Freedom

Freedom

لفظ آزادی ہر انسان کے لئے چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا سب کے لیے ایک یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لفظ آزادی اردو یا ہندی کا ہے جسکے معنی نجات یا چھٹکارہ کے ہیں ہر عاقل، بالغ اور باشعور انسان لفظ آزادی کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا انسان کی تخلیق سے لے کر آج تک اس آزادی کے لئے بڑے بڑے معرکے لڑے گئے اور ان گنت افراد کے خون سے آزادی کی تحریکوں کا آغازوانجام ہوا۔

انسان تو انسان حیوان بھی آزادی کے لئے لڑ مرنے کو تیار ہوتا ہے اگر کسی پرندے کو کسی پنجرے میں قید کر دیاجائے تو کھانا پینا تو اسے پنجرے کی حد تک بھی میسر آسکتا ہے لیکن وہ کھانے کی آزادی اسے نصیب نہیں ہوتی جو پنجرے کے باہر ہوتی ہے۔ شاہد اسی چیز کو دیکھتے ہوئے ہو اپنے پروں کو پھڑپھڑا کراپنی آزادی کے لئے کوشش کرتا ہے اور موقع ملتے ہی آزادی کی راہ لیتا ہے۔ اسی طرح جب کسی مجرم کو قاضی کی عدالت سے قید کی سزا ملتی ہے تو وہ بھی اپنے شب و روز اسی آس میں بسر کرتا ہے کہ ایک دن رہائی اسکا مقدر بے گی۔ آج دنیا میں بہت سی تنظیمیں مختلف قسموں کی آزادی کے لئے کوشاں ہیں کچھ مذہب کی آزادی کے لئیتو کہیں آزادی نسواں کا دنڈورا پیٹ رہیں ہیں اور کچھ اقوام کو آزادی کا حق دلوانے کے لئے کوشاں ہیں۔
اللہ رب العزت نے انسان کو اسکی مان کے پیٹ سے آذاد پیدا کیا ہے یعنی انسان کوآزادی کا حق پیدائشی اور بنیادی ہے اگر یہ حق انسان سے چھین لیا جائے تو وہ بند پنجرے میں قید اس جانور جیسا ہو جاتا ہے جس کے اوپر اس کا نہیں بلکہ اس کو قید کرنے والے کا حکم چلتا ہے۔

ماہ آزادی یعنی اگست کے شروع ہوچکا ہے اور اس کے شروع ہوتے ہی پاکستانی عوام کا جوش و خروش بھی بھر جاتا ہے کیوں کے 14 اگست 1947ء میں پاکستانی عوام کو انگریزوں اور ہندؤں سے نجات ملی اور پاکستان کے نام سے دنیا میں ایک نئی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ اس ماہ میں پاکستانی عوام مختلف طریقوں سے آزادی کی خوشی مناتی ہے۔ مختلف طبقے مختلف انداز سے آذادی کی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ سرکاری اور غیرسرکاری بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے گاؤں ہو یا شہر محلہ ہو یا قصبہ سکول ہو یا کالج یا پھر کوئی سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ ہر جگہ جشن آزادی کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہاے اور ان تقریبات میں قیام پاکستان سے لے کر اس دن تک کے حالات و واقعات دہرائے جاتے ہیں اور ان سب قربانیوں پر بھی لب کشائی کی جاتی ہے جو آذادی کے وقت مسلمانوں نے دی۔ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد ھم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ باور کروانے کے لئے کرتے ہیں کے یہ آذادی جو ہم نے لا تعداد قربانیوں کے برعکس حاصل کی ہم کو کسی تھال میں رکھ کرنہیں ملی اور نہ ہی یہ کسی مزاکرات کی میز کے گرد بیٹھ کر ملی بلکہ اس کے لئے ہمارے آباواجداد نے پانی کی طرح اپنا خون بھایا اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی ہم نے اپنے بہنوں کی عزت و عصمت کی قربانیاں دیں، وہ ماں جو کبھی اپنے لخت جگر کے جسم میں سوئی کا زخم برداشت نہیں کر سکتی اس ماں نے اپنے لخت جگروں کے سینوں میں پیوست خنجر اور نیزے دیکھے اور مسکرا کر اس بیگوروکفن لاشوں کو اپنے رب کے حوالے کر دیا نئی نویلی دلہنیں جن کے لئے اانکا سہاگ اپنے پیدا کئے ہوے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے نے اپنے سہاگ کو آزادی کے لئے ہنسی خوشی قربان کر دیا اور اف تک نہ کہا۔

یہ سب کچھ ہم اپنی نسل کو اس لئے بتاتے ہیں کہ وہ آزادی جس میں وہ آج سانس لے رہے ہیں کیسی کیسی قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی اور آنے والے دنوں میں جب وہ ہماری جگہ لین تواس آزادی کی حفاظت کریں۔ آزادی اللہ رب العزت کی جانب سے ہم مسلمانون کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ آزادی ہر قوم کابنیادی حق ہے اور اگر کسی قوم کو یہ حق حاصل نہ ہو تو وہ یہ حق چھیننا اسکی سب سے بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ آج پاکستان کو بنے ہوئے پورے اڑسٹھ سال کا عرصہ بیت گیا اور اس اڑسٹھ سال کے عرصے میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ ایک لمبی داستان ہے۔ ہمارا دیں اسلام ہے اور اسلام آزادی کی ترغیب دیتا ہے لیکن ایسی آزادی کی ترغیب جس میں ہم کفروشرک سے بچ سکیں ہم اپنے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم کے بتلاے ہوے طریقے کے مطابق اپنی اور اپنی قوم کی ذندگی گزار سکیں۔ آزادی کے ساتھ اللہ تبارک تعالٰی کی عبادت کر سکیں اور اسکی عبادت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ بننے دیں۔ اسی چیز کو دیکھتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے آزادی کا مطالبہ کیا کیوں کے وہ جانتے تھے کے یہ سب کچھ ان کیلئے نہایت ضروری ہے نہین تو وہ اپنا سب کچھ گنوا بیٹھیں گے۔ لہٰذا ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے دن رات ایک کرے کے ہزاروں قربانیاں دے کر پاکستان کے وجود کو یقینی بنانے کے لئے تحریک کا آغاز کیا اور آخر کار 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

آج پاکستانی عوام پچھلے اڑسٹھ سالوں سے آزادی کی خوشی مناتے آرہے ہیں۔ گھر گھر، گاؤں گاؤں، شہر شہر، کو پاکستانی جھنڈے اور جھنڈیوں سے سجایاجاتا ہے، مسجدوں میں نوافل ادا کئے جاتے ہیں پاکستان کی لمبی عمر کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے کو جشن آزادی کی مبارک دی جا تی ہیاور اپنے رب سے دعا کی جاتی ہے کہ پاکستان کو بری نظر سے بچائے۔ ان سب کچھ میں پاکستانی عوام کا کتنا جوش و خروش ہوتا ہے یہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے اور یہ سب کچھ کرنے کا پاکستانی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کی اس خوشی میں اپنے رب العزت کے شکر گزار ہوں جس نے ہمارے آباو اجداد کو آزادی کی جنگ لڑنے کی توفیق بخشی اور ان میں یہ قربانی کا جذبہ پیدا کیا کہ وہ اپنے آنے والی نسلوں کو آزاد کر جائیں اوران کے لئے ایک محفوظ خطہ حاصل کریں اور اللہ تعالٰی نے انکی یہ قربانی رائیگاں نہیں جانے دی جس کی بدولت آج ہم آزاد ہیں اور اگر کسی کو آزادی کی نعمت کے بارے میں پتہ کرنا ہے تو ان قوموں کے افراد سے پوچھے جو آزادی میں ایک سانس لینے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ اللہ ان تمام مسلمانوں کو آزادی نصیب کرے جو آزادی چاہتے ہیں۔
ہمارے آباو اجداد نے یہ قربانی کیوں دی اور اسکے پیچھے کیا مقصد تھا وہ مقصد تھا کہ جو خطہ ہم انگریزوں اور ہندؤں سے آزاد کرائیں اس میں اللہ اور اسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور طریقے نافذ ہوں۔ اسلامی قانون کے بطابق آنے والی نسلوں کو ایسے سانچے میں ڈھال دیں جس سے وہ اپنے دین اسلام اور ملک و قوم کی حفاظت کر سکیں۔ ایک آزاد قوم ہونے کا ناطے مسلمان اپنا قانون اور دستور بنائیں اور اسکی ذمہ داردی وہ آزادی کے بعد آنے والی نسل پر چھوڑ گئے۔

Independence Day

Independence Day

پاکستان کی آزادی کا مقصد یہ تھاکہ اس میں بسنے والا ہرفردچاہیوہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو آزاد ہو گا۔ کسی پر کسی کی زور زبردستی نہیں چلے گی اپنی عدالتیں ہوں گیں، اپنی فوج ہو گی، اپنی کرنسی ہو گی اپنا قانون ہوگا سب کے حقوق چاہے وہ امیر ہو یا غریب وزیر ہو یاکسی ادارے کا معمولی ملازم سب کو ایک ہی قانوں کے تحت ذندگی گزارنا پڑے گی۔ سب کے لئے قانون ایک جیسا ہو گا۔ہر شخص کو انصاف دلیز پر ملے گاہر کسی کو اپنی رائیکے اظہارکے لئے آزادی ہو گی۔ کوئی کسی کے اختیار میں نہیں ہوگاپاکستان کو ایک مکمل اسلامی دھانچے میں ڈھال دیا جائے گا۔ ملک وقوم پرقانون کی بالا دستی ہو گی ایک صحیح اسلامی جمہوریت کو فروغ دیا جائے گا۔اور اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کا نام دیا گیا۔ وہ پاکستان جس کا درخت 14 اگست1947 کو لگا اب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی جڑیں کبھی اتنی مضبوط ہوا کرتی تھیں کہ بڑے سے بڑے توفان کا مقابلہ آسانی سے کر لیا کرتا تھا لیکن اس درخت کی جڑیں اتنی ہی کمزورہو چکی ہیں کہ اب وہ کسی بھی توفان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔

اڑسٹھ سال کا عرصہ کوئی چھوٹا عرصہ نہیں اس عرصے میں ہماری کئی نسلیں پیدا ہو کر امر ہو گئیں میں یہ کہتے ہوئے غلظ نہیں سمجھتا کہ ہم نے ساتھ سال پہلے جس سفر کا آغاز کیا تھا آج گما پھرا کر وہیں کھڑے ہیں ہمارے بزرگوں نے جو زمین کا خطہ تو آزاد کروا کر ہمیں دے دیا لیکن افسوس ہم اس کی بھی حفاظت نہ کر سکے نہ صرف اسکے دو دھڑے کر ڈالے بلکہ اب اس کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سوچ بچار کی جا رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہماری بدقسمتی ہماری خوش قسمتی پر غالب رہی ہمیں آزاد کرنے کے بعد سے لے کر انگریز بھلا کیسے چپ بیٹھ سکتا تھا اس نے زمین کا خطہ تودیکر ہمیں بظاہر آزاد کر دیا لیکن اندر ہی اندر ہماری قوم کو غلام رکھنے کی کوشش میں لگا ہماری قوم کوتووہ غلام نہ بنا سکالیکن ہمارے خد غرض اور لالچی حکمرانوں کے ذریعے ہماری نوجوان نسل پہ اپنے نظریات غالب کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والی نسل بے راو روی کا شکارہو گئی اور آزاد ہوتے ہوئے بھی ایک غلامی کی سی ذندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر ہماری قوم آزاد ہے تو ہمارے حکمرانوں نے بلاچون و چراہ دشمنان اسلام کی غلامی کو گلے کا ہار بنا دیا جو بھلا آخر ان کے لئے پھندے کا سبب بننے والا ہے۔

کیا یہ غلط ہے کہ جو حکمران آج تک پاکستانی عوام نے اپنے لئے منتخب کیے ہیں کیاانھوں نے کبھی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا ہے؟ کیا پچھلے اڑسٹھ سالوں میںہمارے حکمرانوں نے پاکستانی عوام کے جذبات سے بھیانک مزاق نہیں کیا؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے پاکستان اور اسکی عوام کو اپنے مفادات پر ترجیح دی ہے؟ کیا جو خطہ ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا کیا دور دور تک ہم کو اس میں اسلام نظر آتا ہے؟ کیاآج پاکستانی عوام کی جانوں کو کوئی خطرہ نہیں؟ کیاپاکستانی عوام مکمل آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہے؟ کیا انصاف کا ترازو سب کے لئے ایک جیسا ہے؟ کیاہمارے حکمرانوں نے دشمنو ںکے کہنے پر اپنی ہی عوام کا خون پانی کی طرح نہیں بھایا؟ کیا سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی پالیسی کے باعث پاکستان کی ساکھ کو پوری دنیا میں متاثر نہیں ہوئی؟ کیا پچھلے اڑسٹھ برسوں میں پاکستان کی مختلف حکومتوں نے عوام کے لئے کوئی ایساکام کیا ہو جس سے برائے راست عوام کو فائدہ پہنچاہو؟

Pakistan

Pakistan

کیا پاکستان کی عوام کو وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو ایک ریاست کی عوام کو ہونے چاہیں؟ کیاپاکستان میں ہونے والے تمام اہم فیصلوں کی رائے عوام یا اسکے منتخب تمائندے کرتے ہیں؟ کیاآج پاکستان کی قسمت کا فیصلہ عوام یا اسکے نمائندوں کی بجائے صرف فرد واحد کے پاس نہیں؟ ایسے ہزاروں سوالات آپ لوگوں کے سامنے ہیں اگرآپ کے پاس ان سوالوں کے جوابات مثبت میں ہیں تو آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ آزادی کا جشن جوش جذبے سے منائیں اگر جوابات منفی ہیں تو خداراہ آپ اپنے آپ کو دھوکا نہ دیں۔اس سب کچھ کے پیچھے کون ہے اور ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں کیوں اس میں کس کا قصور ہے کون اصل وجہ ہے۔ تو جناب اس سب کے پیچھے کوئی ماورائی طاقت نہیں بلکہ اس سب کے ذمہ دار ہم خود پاکستانی عوام ہیں ہم ہیں جس نے آج پاکستان کوایسی حالت میں لا کھڑا کیا ہے جس سے آگے تبائی بربادی ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ ہم ہی ہیں جو ہر بار ان ظالم اور جابر حکمرانوں کو اپنے اوپر بٹھا کر اپنے ملک کے ساتھ زیادتی کی انتہا کرتے ہیں شاہد ہم بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمیں اس خوش فہمی سے باہر نکلنا ہو گا اپنے آپ کو آزاد کروانا ہوگا ایسے نظام کی حمایت کرنا ہو گی جو پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے فائدہ مند ہو۔ ایسا نظام متعارف کروانا ہوگا جو آنے والی نسلوں لے لئے کسی پریشانی کا سبب نہ بنے۔ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا اور اس سب کے لئے ہمیں ایک دفعہ پھر ایک بہت بڑی آزمائش سے گزرنا ہوگا۔

آیئے آج مل کر یہ عہد کریں کہ ہم میں سے ہر ایک چاہے وہ کوئی عام ہو یا خاص امیر ہو یا غریب ہر شخص اپنے انفرادی مفادات پر ملک عزیز کے مفادات کو ترجیح دیں گے۔ آج ہم یہ عہد کریں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم سب مل کر قانون کا احترام کریں گے۔ یہ عہد کریں کے ہم نے پاکستان کو حقیقی اور صحیح معنوں میں آزاد کروانا ہے اور وہ پاکستان بنانا ہے جسکا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ جسکے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانی دی تھی۔ نہیں تو بروز قیامت ہم سب اپنے اللہ اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تحریک آزادی کے شہیدوں کے سامنے شرمندہ ہوں گے۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472