تحریر: ڈاکٹر عثمان غنی خوشبو کا تعارف عطا رکو نہیں کرانا پڑتا، خوشبو اپنی موجودگی کا پتہ خود بتا دیتی ہے۔ باد صبا کے جھونکوں سے گلاب کی کلیاں جھوم اٹھتی ہے، رات کے آخری پہر شبنم کے نرم و گداز قطرے پتیوں کو مسکرانے اور کھلنے پر مجبور کر دیتے ہیں، لگتا ہے یہ دلکش اللہ تعالیٰ نے تاجدار کائنات حضرت محمدۖ کو ہر پوپوٹھنے پر خوش آمدید کہنے کیلئے سجایا ہے۔ جس پر وہ خود بھی درود و سلام بھیجتا ہے اور ایمان والوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تاکید کی ہے ،بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر بقول حافظ شیرازی جوباد عزم سرکوئے یارخوا، ہم کرد نفس ببوئے خوشش مشکبار خوا ہم کرد (ہوابھی انکے کوچے سے مشکبار ہو کر آتی ہے میں سانس کو ان کی خوشبو سے مشکبار کروں گا)
عرب میں یہ دستور رائج تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر اس میں انگلیاں ڈبو لیتا تھا ۔ اس کی وجہ فیض صاحب کی طرح خون دل میں انگلیاں ڈبونا نہیں تھا ، یہ غصے و انتقام کی آگ میں جلنے کی ایک رسم تھی ۔قصہ کچھ یوں تھا کہ کعبہ کی تعمیر تمام قریش نے مل کر کی تھی ۔ اب اگلہ مرحلہ مبارک پتھر ”حجرا سود” کو نصب کرنے کا تھا ، ہر شخص کی دلی خواہش تھی کہ وہی اس کو نصب کرنے کا فریضہ سرانجام دے جس پر شدید اختلاف پیدا ہو گیا ، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ تلواریں ، نیاموں سے باہر آگئیں ، چار دن گزر چکے تھے اور یہی حجراسود کو نصب کرنے کا جھگڑاجاری تھا ، پانچویں دن ابومیہ بن مغیرہ جو قریش میں سب سے زیادہ معمر تھے ،نے رائے دی کہ کل صبح کو سب سے پہلے جو شخص آئے وہی ثالث قرار دے دیاجائے ۔ سب نے اس رائے کو تسلیم کر لیا ۔ دوسرے دن تمام قبائل کے معزز آدمی اس مقررہ جگہ پر پہنچ چکے تھے جہاں حجراسود کو نصب کیاجانا تھا ۔ چشم فلک کا یہ منظر ، تاریخ میں سنہری الفاظ میں درج ہے کہ صبح کو سب سے پہلے لوگوں کی نظریںجس پر پڑیں وہ جمال جہاں تاب چہرہ آپ ۖ کا تھا لیکن ”رحمت العلمین ” کا لقب پانے والے نبی ۖ نے قبول نہ کیا کہ وہ اس شرف سے تنہا بہرور ہوں ۔ آپ ۖ نے فرمایا جو قبائل دعویدار ہیں سب کا ایک ایک سردارمنتخب کر لیا جائے۔
آنحضرت ۖ نے ایک چادر بچھا کر حجراسود کو اس میںرکھ دیا اور تمام سرداروں سے کہا کہ چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اوپر اٹھائیں جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپ ۖ نے حجرا سود کو اٹھا کر نصب فرمایا ،سب قبائل کو شریک کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں صرف مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ سب جہانوں کیلئے رحمت کا پیغمبر بن کر آیا ہوں ، ارشاد ہوا ”میں آپ ۖ کی موجودگی کی وجہ سے کفارپر عذاب کیسے نازل کر دوں ” سراپا رحمت تھی ، سب جہانوں کیلئے ،سب مخلوقات کیلئے ،سیرت النبی ۖ میںعلامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ”یہ گویا اشارہ تھا کہ دین الٰہی کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی انہیں ہاتھوں سے نصب ہوگا ” عالم کائنات کا سب سے مقدم فرض اور سب سے زیادہ مقدس خدمت یہی رہی ہے کہ نفوس انسانی کے اخلاق و تربیت کی اصلاح و تکمیل کی جائے ، یعنی پہلے ہر قسم کے فضائل اخلاق ،زہد و تقویٰ، عصمت و عفاف ، احسان و اکرام ، حلم و عفو ، عزم و ثبات ، ایثار و لطف ، غیرت و استغنا کے اصول و فروغ نہایت صحیح طریقے سے قائم کیے جائیں اور پھر تمام عالم میں ان کی عملی تعلیم رائج کی جائے ۔ آپ ۖ نے ان سب جذبوں کو سامنے رکھتے ہوئے تلوار کے طاقتور ہتھیار کے بجائے ، اخلاق و تربیت سے ایک نئے اسلامی معاشرے کی بنیاد اٹھائی ، وہ اخلاق جس کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا ”کیا تم نے قرآن نہیںپڑھا ” آپ ۖ کا اخلاق تو چلتا پھرتا قرآن ہے ”، یہ وہ زمانہ تھا جہاں پتھر کا دور اور جنگل کے قانون سے بدتر قانون تھا ، بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینا ، امانتوں میںخیانت کرنا ،ایک ایک لڑائی کا سلسلہ نسلوں تک جاری رہنا ، غلاموں کو بدتر سمجھا جانا ، یتیموں کو لاوارث سمجھاجانا ،کمزور کے حقوق سلب کرنا حتیٰ کہ جانور بھی ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے ، مگر آپ ۖ نے کسی یتیم کی سرپرستی کرنے والے کو جنت کی بشارت دی ، بیٹی کو خدا کی رحمت قرار دیا ، غلاموں کو آزادی کی نعمت سے مالا مال فرمایا، لوگوںکو دین اسلام سے سرشار کیا ،محکوموں کی محکومی کو دور کیا، فرمایا ، برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے کالے ، گورے ، عربی ، عجمی کو کسی پر ذات پات ، رنگ نسل کی بنیاد ر پر کوئی فضلیت حاصل نہیں ، آپ ۖ کی تبلیغ اور تربیت کا یہ اثر ہوا کہ لوگ اپنے سرداروں کے پاس اپنی مانتیں رکھنے کی بجائے آپ ۖ کی خدمت میںحاضر ہو کر اپنی امانتیں پیش کرتے ، چنانچہ آپ ۖ صادق و امین کے لقب سے مشہور ہوئے ، انصاف کا اس معاشرے میںطوطی بول رہا تھا۔
قریش کی ایک بڑے گھرانے کی عورت نے چوری کی جو آپۖ کے پاس اس کی معافی کی سفارش آئی تو آپ ۖ نے تاریخی جملے کہے” تم میں سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتور کو چھوڑ دیتے اور کمزور کو سزا دیتے ، خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی(فاطمہ بنت محمدۖ) بھی چوری کرتی تو اسکے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ، انصاف کی یہ کسوٹی(YardStick) اس وقت کے معاشرے میں قائم کی گئی تھی اور آج ۔۔۔۔۔
ایک غیر مسلم Micheal Hartنے اپنی کتاب The 100میں آپ ۖ کو سرفہرست گردانتے ہوئے لکھاہےProphet Muhammad The Most Influential Man In Historyمزید لکھتے ہیں My Choice Of Muhammad To Lead The List Of The World’s Most Influential Preson May Surprise Some Readers And May Be Questioned By Other, But He Was The Only Man In History, Who Was Supremely Sucessful on Both The Religious & Secular Levelیعنی آپ ۖ وہ واحد شخصیت ہیں جو دینی اور دنیاوی ہر لحاظ سے فاتح و کامران ٹھہرے۔
ایک اور غیر مسلم نے محبت و مہربانی کا بادشاہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے Muhammad was the soul of kindness and his influence was felt and never forgotten by those, around him. برنارڈ شاہ نے The Greatest leader of all Times لکھنے کے ساتھ The Genuine Islamمیںلکھا By a Fortune absolutely unique in history, Muhammad is a threefold founder of a nation, of an empire and of a nationبات دین کی ہو یا دنیا کی،تجارت کی ہو یا سیاست و حکمرانی کی ،جنگ و جدل کی ہو یا امن و آتشی کی، حکمت عملی کی ہو یا دانائی کی، آپ ۖ کی زندگی اسوة حسنہ ہے ، آپ کی خوشبو نور ہے جو ہر مومن کے سانس میں بستی ہے ، رگ رگ کے ساتھ چلتی ہے قرآن آپ ۖ پر نازل کیا گیا ، نبوت آپ ۖ پر تمام ہوئی ، اسلام آپۖ پر تمام ہوا ، غازی علم الدین شہید کو قبر میں اتارتے ہوئے حضرت علامہ اقبال نے تاریخی الفاظ کہتے تھے ”اسی موںتکدے رہ گے تے ترکھانا ں دا منڈا بازی لے گیا”، اقبال نے کہا تھا
قوت عشق سے ہر پست کو پالا کر دے دہر میں اسم محمد ۖ سے اجالا کر دے