پیرس (جیوڈیسک) فرانس کے دارالحکومت پیرس میں شہریوں نے ’’زرد رنگ کی صدریاں‘‘ پہن کر ایندھن پر ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔پولیس نے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس اور ’’پانی توپ‘‘ ( واٹر کینن) کا استعمال کیا ہے۔
ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے پیرس میں زرد صدری تحریک کے مظاہرے میں شرکت کی ہے۔ انھوں نے پیٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس کی شرح میں اضافے اور صدر عمانوایل ماکروں کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف سخت احتجاج کیا۔انھوں نے ایلزی محل کی جانب جانے کے لیے وہاں موجود پولیس کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تو ان کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
زرد صدری والے بعض مظاہرین نے العربیہ نیوز چینل کو بتایا ہے کہ پولیس نے پہلے مظاہرین کی جانب اشک آور گیس کے گولے پھینکے تھے۔مظاہرین پُرامن تھے لیکن پولیس نے بہ زور طاقت انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ انتہائی دائیں بازو اور بائیں بازو کے انتہا پسند مظاہرین میں گھس کر گڑ بڑ کرسکتے ہیں جس کے بعد مظاہرین کے ہجوم کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔ متبادل پولیس کی یونین کے سیکریٹری جنرل ڈینس جیکب کا کہنا ہے کہ قریباً تیس ہزار افراد کی پیرس میں احتجاجی مظاہرے میں شرکت متوقع ہے۔
پیرس میں قریباً تین ہزار پولیس اہلکارو ں کو مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔شہر میں آج ایندھن کی قیمت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے علاوہ جنسی تشدد کے خلاف مظاہرہ کیا جارہا ہے ، ایک فٹ بال میچ اور رگبی کا ایک میچ بھی ہورہا ہے اور سکیورٹی فورسز کو ان تما م مواقع پر امن وامان کے قیام کی ذمے داری سونپی کی گئی ہے۔
فرانس بھر میں گذشتہ ایک ہفتے سے زرد صدریاں پہن کر ڈرائیور حضرات احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔واضح رہے کہ ڈرائیوروں کو اپنی کاروں میں زرد صدری رکھنا لازمی ہے۔انھوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں بڑی شاہراہوں کو ٹائر جلا کر یا رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا۔وہ ایندھن کے ڈپوؤں ، خریداری مراکز اور بعض فیکٹریوں میں داخلے میں بھی رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں۔
صدر ماکروں نے گذشتہ سال ڈیزل اور پیٹرول پر نئے ٹیکس عاید کیے تھے۔زردی صدری والے ان ٹیکسوں کی مخالفت کررہے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے یہ ٹیکس شہریوں کی ماحول دوست ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی غرض سے متعارف کرائے تھے۔ حکومت نے ٹیکسوں کے علاوہ گرین یا بجلی سے چلنے والی گاڑیاں خرید کرنے والے شہریوں کو مراعات کی بھی پیش کش کی ہے۔
گذشتہ ہفتے کے روز زرد صدری والوں کے پہلے مظاہرے میں ملک بھر میں قریباً تین لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔ فرانسیسی وزارت داخلہ نے جمعرات کو بتایا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران میں تشدد کے واقعات میں دو افراد ہلاک اور 606 زخمی ہوگئے تھے۔
پیرس میں حکام نے آج مظاہرین کو ایفل ٹاور کے نزدیک جمع ہونے کی اجازت دی ہے لیکن ان کی قومی اسمبلی اور صدارتی محل ایلزی کے نزدیک واقع پلیس ڈی لا کنکارڈے پر اجتماع کی درخواست مستر د کردی تھی۔واضح رہے کہ ماکروں حکومت کے معاشی اقدامات کے خلاف اس احتجاجی تحریک کا کوئی لیڈر نہیں ہے لیکن یہ وقت کے ساتھ زور پکڑ رہی ہے اور رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق 70 فی صد فرانسیسیوں نے اس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔اب فرانس سے باہر بھی ماکروں حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔