پیرس (جیوڈیسک) فرانس نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزی میں مزید اقدامات سے گریز کرے لیکن اس نے ایران کی جانب سے افزودہ یورینیم کا مقررہ سے زیادہ مقدار میں ذخیرہ اکٹھا کرنے پر کوئی سخت ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
فرانسیسی ایوان صدر کی جانب سے اری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر عمانوایل ماکروں نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری سمجھوتے کا مکمل احترام کرے اور وہ ایسے تمام اضافی اقدامات سے گریز کرے جس سے اس کی جوہری سمجھوتے کے تقاضوں کی پاسداری سے متعلق سوالات پیدا ہونا شروع ہوجائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ماکروں آیندہ دنوں میں ایسے اقدامات کریں گے جن سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ ایران جوہری سمجھوتے کے تقاضوں کو پورا کرے اور اس ڈیل کے نتیجے میں اقتصادی فوائد وثمرات سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے۔ تاہم فرانسیسی حکام نے فوری طور پر یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ کیا اقدامات ہوسکتے ہیں۔
ایران نے گذشتہ سوموار کو 2015 ء میں چھے بڑی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزی کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے اس سمجھوتے کے تحت حاصل اجازت سے 300 کلوگرام سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے۔ ویانا میں قائم بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے سمجھوتے کے تحت مقررہ مقدار سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے۔
ایران کا یہ اقدام یورپ کی سفارت کاری کے لیے بھی ایک امتحان ہے کیونکہ برطانوی ، فرانسیسی اور جرمن حکام پہلے تو یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر ایران نے جوہری سمجھوتے کی بنیادی خلاف ورزی کی تو اس کو سخت سفارتی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ ڈیل کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بعض قدغنیں عاید کردی تھیں ۔اس کے بدلے میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیو ں کو ختم کردیا گیا تھا۔تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال مئی میں اس سمجھوتے کو خیرباد کہہ دیا تھا اور نومبر میں ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔
امریکا کے دستبرداری کے فیصلے کی مخالفت کرنے والے یورپیوں نے ایران کو جوہری سمجھوتے کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ایران اب سمجھوتے میں شامل تین یورپی ممالک برطانیہ ، جرمنی اور فرانس سے امریکا کی اپنی تیل کی برآمدات اور بنک کاری کے نظام پر عاید پابندیوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات کا مطالبہ کررہا ہے۔یہ تینوں ممالک ایران کے ساتھ تجارت کے ایک بارٹر نظام کو وضع کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں ۔
اس سمجھوتے کی شرائط کے تحت اگر کوئی بھی فریق یہ سمجھتا ہے کہ ایران اس کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے تو وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کے لیے قرارداد پیش کرسکتا ہے۔