فرانس کو اسلام سے دور کرنے کی سازش

Muslim is not Terrorism

Muslim is not Terrorism

تحریر: محمد عتیق الرحمٰن

فرق میں نے تو نہیں دیکھا لہو میں کوئی
خون مسلم پہ کیوں سوجاتی ہے دنیا ساری

فرانس میں حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیوں کہ ہمارا مذہب اس طرح کی کاروائیوں کی اجازت نہیں دیتا۔دلی دکھ اپنی جگہ لیکن کشمیر، فلسطین ،برما ،عراق وافغانستان اور شام میں لاکھوں ایلان کردی ، ان کی مائیں ،بہنیں ،باپ اور بھائی کٹی پھٹی لاشوں کی صورت میں مجھے اپنا بے بس وجود دکھا کر کہہ رہے تھے بھائی !ہم پرکتنا تم نے مذمتیں کی ہیں اور کتنی کوشش کی ہے ہم پراقوام متحدہ اکٹھی ہوجائے ؟۔بھائی! پچھلے کئی عشروں سے دنیا میں دہشت گردی اور عالم کفر کی سازشوں کا شکارہوں اور ان سب کے باوجود بھی میں اور میر امذہب ہی دہشت گر دہے۔

کیا ہیروشیما اور ناگاساکی پرایٹم بم مسلمانوں نے گرائے تھے اورجب فرانس میں 14 جولائی 1786ء کو ہاتھ اور کالر دیکھ کر قتل کئے جارہے تھے تو کیااس انقلاب کے پیچھے کسی مسلمان ہٹلرکا ہاتھ تھا؟۔آج پوراعالم اسلام دہشت گردوں کی زد میں ہے ۔کہیں تحریک طالبان پاکستان ، کہیں بوکوحرام اور کہیں داعش جیسی تنظیمیں اورکہیں امریکہ نیٹو اور اسرائیل اپنے پنجے گاڑے مسلمانوں کے ارزاں خون پر ہاتھ رنگین کررہے ہیں۔ توکیا ان سب کے باوجود بھی مسلمان ہی دہشت گرد ہیں اورکیا اسلام اب بھی دہشت گردوں کا مذہب ہے۔

انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس لندن نے عالمی دہشت گردی پر گلوبل انڈیکس ٹیررازم 2014 ء پر رپورٹ جاری کی ہے جس میں 162 ممالک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں، اموات اور مالی نقصانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گرد حملوں سے 5 ممالک عراق، شام، افغانستان، پاکستان، اور نائجیریا سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔جی ہاں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک مسلمان ہی ہیں۔لیکن فرانس میں حملے کو پوری دنیا جس طرح بریکنگ نیوز اور اظہار یکجہتی کااظہارکررہی ہے وہ مجھے بہت کچھ سوچنے اور کرنے پرمجبورکررہاہے اور مسلمانوں کے عمل بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔

ISIS

ISIS

آئیے فرانس حملے سے پہلے داعش نامی تنظیم پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔داعش ایک ایسی تنظیم ہے جو نام مسلمانوں کا لیتی ہے، ان کا حلیہ بھی مسلمانوں جیسا ہے مگر ان کے تمام کام اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور بلکہ اس کے الٹ ہیں۔ لوگوں کے گلے کاٹنا، ان کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا اور پھر ان سب کی ویڈیو بنا کر بیک گراؤنڈ پر قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہﷺ چلانا اور اسلام کوبطور دہشت گرد مذہب پیش کرنا ان کا وطیرہ ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کو ذلیل کرنا ہو، دباؤ ڈالنا ہو وہاں پر داعش نمودار ہوجاتی ہے۔اوریہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آج تک کسی بھی قابل ذکر عالم دین نے داعش کو اسلام کی نمائندہ جماعت نہیں کہا بلکہ اسے خوارج سے کہاجاتاہے جو اسلامی تعلیمات کی رو سے ’’جہنم کے کتے‘‘ ہیں۔

مثال کے طور پر جب کراچی میں ایک سیاسی جماعت کے خلاف آپریشن ہورہاتھا تو اچانک ہی داعش نمودارہوئی تھی اور افغانستان میں بھی داعش افغانی طالبان پر حملے کرچکی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں توداعش کے جھنڈے کو سرعام پاکستانی اور کلمے والے جھنڈے کے ساتھ نامعلوم افراد کے ہاتھوں میں دیکھا جاتا ہے۔یہ توبھلا ہو حریت رہنماء سید علی گیلانی کا جنہوں نے اپنے ایک بیان میں واضح کردیا کہ تحریک آزادی کشمیر کا داعش سے کوئی تعلق نہیں ،یہ گمراہ لوگ ہیں ۔یوں بھارت کی تحریک آزادی کوسبوتاژ کرنے کی کوششوں کو حریت رہنماؤں نے ناکام کردیا۔ فلسطین میں حماس کے خلاف داعش منظر عا م پرآتی رہتی ہے اور مجاہدین وفلسطینیوں پر حملے کرناان کا پسندیدہ کام ہے ۔مندرجہ بالا حالات کودیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ جہاں بھی مسلمانوں کو کمزورکرنا ہو وہاں داعش کا فتنہ سراٹھاتاہے۔

اب آئیے ذرا فرانس میں حملے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں ۔فرانس میں ہونے والے حملے کے متعلق داعش نے یہ جواز تراشاہے کہ شام میں ہونے والی بمباری کے خلاف یہ دھماکے کئے گئے ہیں ۔لیکن قارئین ذرا سوچیں کہ حملے کسی فوجی تنصیبات پرنہیں بلکہ نہتے لوگوں پرکئے اور نام اسلام کا استعمال کیا۔تعلیمات بدنام ہوئیں تو محمد کریم ﷺ کی کیونکہ آپﷺ نے دوران جنگ بھی نہتے لوگوں بچوں، عورتوں، بوڑھوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ اب تصویر کا ایک اوررخ دیکھئے ۔ماہ اگست میں فرانس میں فلسطین کی وزارت خارجہ کے ممبرریادالمالکی کی ملاقات فرانسیسی وزارت خارجہ کے وزیرلورینٹ فیبیس سے ہوتی ہے۔

Palestine

Palestine

فرانس کی طرف سے فلسطین کی حمایت میں سختی سے بیان جاری کیا جاتا ہے کہ ’’فلسطین کو یا تو جلد ازجلد عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے یا پھر اس پر اقوام متحدہ کی قرارداد لائی جائے‘‘۔ فرانس کا یہ یوٹرن اسرائیل میں خطرے کے سائرن بجا دیتا ہے ۔ 19 اگست 2015 کو اسرائیل کے مشہور اخبار ’’دی یروشلم پوسٹ‘‘ میں اسرائیلی صحافی HERB KEINON کی اسٹوری چھپتی ہے، جس کا عنوان ہوتا ہے کہ ’’فرانس فلسطین کو تسلیم کرنے کی بنیاد چھپا رہا ہے‘‘ اور اس آرٹیکل میں فرانس کو فلسطین کی حمایت کرنے پر نہ صرف خوب لتاڑا جاتا ہے بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں دھمکی بھی دی جاتی ہے کہ فرانس ایسی حرکت سے دنیا کا امن خطرے میں ڈال رہا ہے۔ فرانس میں حملے کے بعد سوشل میڈیا پر فرانس کی حمایت اور اس کے خلاف پوسٹنگ میں بھی اضافہ ہوا۔

کچھ دوستوں نے اس طرح کے اسٹیٹس بھی اپ لوڈکئے تھے۔’’ ہم جانتے ہیں تم نے ہمارے مذہبی جذبات پر بڑی گہری ضربیں لگائیں ہیں اور تم نے ہمارے نبی مکرم ﷺکے خاکے بنائے اورہماری ماؤں بہنوں کے سروں سے چادریں چھینیں لیکن ہم اسی نبی مکرم ﷺکی تعلیمات کی وجہ سے آج تمہارے ساتھ کھڑے ہیں ۔‘‘ہمیں اس طرح کی تعلیمات ہی دنیاکے سامنے رکھنی چاہیءں ناکہ جذبات میں آکر دشمن کے ہاتھ مضبوط کریں۔

میں جانتا ہوں کہ میرے کچھ قارئین میرے اس تجزیے سے شدید اختلاف کریں گے لیکن وہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ یورپ میں اس وقت سب سے زیادہ مساجد فرانس میں ہیں اور اسلام وہاں پر بڑی تیزی سے پھیل رہاہے ۔فرانس میں ایک کتاب ’سبمشن` (اطاعت، فرماں برداری) جنوری میں شائع ہوئی جس میں مصنف ’’مشل ہولے بیک ‘‘نے فرانس کو ایک اسلامی مملکت کے طورپردکھایا ہے۔پیرس سے بی بی سی کے نامہ نگار ہیو سکوفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے مطابق فرانسیسی معاشرہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتا رہتا ہے اور آخر 2022ء میں ایک مسلمان جماعت کا رہنما ملک کی صدارت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔

Islam

Islam

جہاں تک مشل ہولے بیک کا اپنا تعلق ہے تو وہ ماضی میں اسلام کو’ ’سب سے زیادہ احمقانہ مذہب‘ ‘قرار دے چکے ہیں۔اس کتاب سے ظاہرہوتا ہے کہ اسلام فرانس میں کہاں تک پھیل چکاہے اور فرانسیسی اسلام کوکتنا اسٹڈی کررہے ہیں ۔میرے خیال سے پیرس حملہ ایک طرف تو فرانس کو فلسطین کی حمایت کی سزا دینا بھی تھاتو دوسری طرف فرانسیسی عوام کو اسلام سے دورکرنے کے لئے یہ سب کچھ کرنا بھی لازمی تھا ۔تاکہ وہ اسلام کو ایک دہشت گردانہ مذہب کے طور پردیکھیں اور فرانس میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو جائے۔ اسرائیلی اس بات کی مکمل کوشش کررہے کہ فرانس کو فلسطین کی حمایت سے روکا جاسکے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام کو دہشت گرد مذہب کے طور پر دنیاکے سامنے لایاجائے۔اس وقت یورپ کو تارکین وطن کی زیادتی کا بھی سامنا ہے۔

جس کے آگے بند باندھنے کے لئے اس طرح کے واقعات کو اسلام اورمسلمان کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے ۔ہم ابھی سے دیکھ رہے ہیں کہ فرانس میں مساجد پرپابندی لگناشروع ہوچکی ہے اور عیسائیوں کاپوپ جنگ کا سبق پڑھارہاہے۔شامی تارکین وطن کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے خلاف مزید آوازیں اٹھیں گی اور مسلمانوں کو مزید تنگ کیا جائے گا۔مسلمانوں کے لئے یہ دوسرا 9/11 ہے جس سے نپٹنا اگرچہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرورہوگا۔مسلم رہنماؤں کو چاہیئے کہ اس حوالے سے اپنا ورک مکمل کرکے مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے ہنگامی حالات کے لئے تیار کریں اور اسلام کے لافانی وزریں اصول وتعلیمات کو دنیاکے سامنے رکھ کرداعش جیسی تنظیموں کے آگے بند باندھنے میں اپنا کردار اداکریں۔

Mohammad Atiq Rahman

Mohammad Atiq Rahman

تحریر: محمد عتیق الرحمٰن