پیرس (زاہد مصطفی اعوان) فرانس کے دارالحکومت پیرس میں حکومت مخالف مظاہرے چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں اور اس دوران پولیس کی مظاہرین سے پرتشدد جھڑپیں ہوئی ہیں۔بی بی سی کے مطابق سنیچر کو پیرس کے وسطی علاقے میں پانچ ہزار کے قریب مظاہرین جمع ہوئے اور انھیں منشتر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا ہے جبکہ کم از کم 272 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پیرس میں جاری مظاہروں پر قابو پانے کے لیے آٹھ ہزار پولیس اہلکار اور 12 بکتر بند گاڑیاں تعینات کی گئی ہے جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں مظاہروں کی وجہ سے 90 ہزار کے قریب پولیس اہلکار تعینات ہیں۔فرانس میں ‘پیلی ویسٹ’ تحریک ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئی تھی جبکہ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ تحریک کو پرتشدد مظاہرین نے یرغمال بنا لیا ہے۔
گذشتہ ہفتے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں بڑی تعداد میں مظاہرین زخمی ہو گئے تھے اور یہ فرانس میں کئی دہائیوں میں ہونے والے سب سے پرتشدد مظاہرے تھے۔خیال رہے کہ ڈیزل فرانسیسی گاڑیوں میں عام طور پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ہے اور گذشتہ 12 ماہ میں ڈیزل کی قیمت تقریباً 23 فیصد بڑھ گئی ہے۔ سنہ 2000 سے اب تک ایک لیٹر کی قیمت میں اوسطً 1.51 یورو کا اضافہ ہوا ہے جو ڈیزل کی اب تک کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔سنیچر کو دارالحکومت پیرس کی مشہور سیاحتی شاہراہ شانزے لیزے میں تقریباً پانچ ہزار مظاہرین نے احتجاج مارچ کیا اور پولیس نے انھیں حصار میں لے رکھا تھا اور اس موقع پر آگے بڑھنے والے مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا تو مظاہرین اطراف کی گلیوں میں پھیل گئے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
پولیس حکام نے 272 مظاہرین کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی ہے جبکہ وزیراعظم ایڈورڈ فلپس نے کہا ہے کہ یہ گذشتہ ہفتے کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور ہم یہ یقین دلاتے ہیں کہ کل اتوار کو صورتحال زیادہ بہتر ہو گی۔چار ہفتوں سے جاری مظاہروں میں پولیس کے مطابق تین افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں جبکہ کشیدہ ہوتی صورتحال کی وجہ سے فرانسیسی صدر میخواں کو جی 20 سربراہی اجلاس چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا تھا۔