تحریر : راؤ خلیل احمد 23 اپریل کو فرانس اپنے نئے صدر کے چناؤ کے لیے پہلے ٹوور میں داخل ہو گا حسب سابق 11 افراد ہی امیدوار ہیں مگر اس الیکشن میں سیاسی صورتحال بڑی دلچسپ ہو گئی ہے، اس دلچسپ صورتحال کا آغاز یکم دسمبر 2016 کو اس وقت ہوا جب موجودہ صدر فرانس فراسواہولند نے یہ کہ کر اگلے الیکشن لڑنے سے معزرت کر لی کہ فرانس کے صدر کے طور پر جو زمہ داریاں مجھے نبھانی چاہیں تھیں میں ان سے نبرازما نہیں ہو سکا۔
اس لیے اگلے الیکشن میں میں صدارت کا امیدوار نہیں ہوں گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی سوشلسٹ پارٹی میں صدارتی امیدوار کے لیے دوڑ لگ گئی وزیر اعظم Manuel Valls کو استعفیٰ دلوا کر پارٹی الیکشن میں کھڑا کیا گیا مگر پارٹی الیکشن میں Benoît Hamon ۔58 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہو کر سوشلسٹ پارٹی کے نامزد امیدوا بن گیے۔ رپلکن کا پارٹی الکشن بھی خوب رہا François Fillon سابق صدر نیوکولہ سارکوزی اور ایلن جوپے کو حیران کن شکست دے کر رپبلکن کے نامزد امیدوار بنے۔ فرنٹ نیشنل کی میری لاپن پہلے ہی امیدوار تھیں ۔
19 اگست 1981 کو مراکش میں پیدا ہونے والے Jean-Luc Mélenchon, کا تعلق بھی سو شلسٹ پارٹی سے تھا 2008 میں پارٹی چھوڑ کر Unsubmissive France پارٹی تشکیل دی اور 2012 کے صدارتی الیکشن میں 11 فیصد ووٹ لیے اس کے باوجود سوشلسٹ پارٹی 28 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔
اس الیکشن کی خاص بات نوجوان آزاد امیدوار Emmanuel Macron کی دھماکے دار انٹری ہے جو اپنے پروگرام اور اس کی شاندا پزنٹیشن سے اس الیکشن کے دلہا کا روپ دھارنے والے ہیں ۔ Emmanuel Macron نے نئی پارٹی ” En Marche یعنی ایک قدم” کے نام سے پارٹی رجسٹر کروائی ہے ۔ اور وہ ایک ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کی کلکولیشن میں 26 فیصد کے ساتھ سب سے آگے ہیں۔ ان کا یہ مقام فرانس سب کے لیے ہے کے سلوگن کا مرہون منت ہے ۔ آج کل دنیا میں الیکشن اسلام مخالف ٹرینڈ کے ساتھ لڑے جا رہے ہیں اور جیتے جا رہے ہیں مگر فرانس کا الیکشن ٹرینڈ بدل دے گا Emmanuel Macron کے نزدیک جو لوگ فرانس میں ریتے ہین وہ ایشوء نہیں ہے وہ سب فرانس کی ترقی میں شامل ہیں۔ ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی جا رہی ہے اور یہ بات Emmanuel Macron کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
تجزیہ نگار دوسرے نمبر پر 25 فیصد کے ساتھ فرنٹ نیشنل کی میری لاپن کو دیکھتے ہیں اور 17 فیصد کے ساتھ François Fillon کو تیسرے نمبر دیکھ رہے ہیں۔ چوتھے پر 11 فیصد کے ساتھ Jean-Luc Mélenchon کو اور پانچویں نمبر پر 8 فیصد کے ساتھ سوشلسٹ پارٹی کے Benoît Hamon کو دیکھ رہے ہیں۔ سوشلسٹ ، کیمونسٹ ،رپبلکن اور فرنٹ نیشنل سے آزاد امیدوار Emmanuel Macron ” ایک قدم” آگے ھے۔ لگتا یہ ہے کہ فرانس میں دو پارٹی سسٹم کا جنازہ نکل جائے گا۔
فرانس کی یکم جنوری 2017 کو آبادی 6 کروڑ 69 لاکھ 90 ہزار تھی ۔ جو کہ پاکستان کی آبادی سے تقریبا”ایک کم تہائی ہے۔ ان میں رجسٹرڈ ووٹر 4 کروڈ 48 لاکھ 34 ہزار ہیں۔ یکم جنوری 2012 کو فرانس کی آبادی 6 کروڑ 56 لاکھ 80 ہزار تھی جبکہ رجسٹرڈ ووٹ 4 کروڑ 60 لاکھ 66 ہزار تھے۔ یکم جنوری 2012 سے یکم جنوری 2017 تک فرانس کی آبادی میں 17 لاکھ 10 ہزار کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مگر رجسٹر ووٹوں کی تعداد میں 12 لاکھ 26 ہزار کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ ایشوء ابھی تک فرانس کے کسی چینل نے قابل ڈبیٹ نہیں سمجھا۔ آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔