پیرس (جیوڈیسک) آج فرانس میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے عوام اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ آج کے انتخابات کا نتیجہ فرانس کے علاوہ یورپ کی مجموعی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
پولنگ صبح آٹھ بجے سے شام آٹھ بجے تک جاری رہے گی۔ ابتدائی نتائج الیکشن ختم ہونے کے فوری بعد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ آج اتوار کے الیکشن میں مطلوبہ پچاس فیصد ووٹ حاصل نہ کرنے کی صورت میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان سات مئی کو دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔
فرانس کے اوورسیز علاقوں میں ہفتہ بائیس اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔ امریکا، کینیڈا اور لاطینی امریکی ملکوں میں مقیم فرانسیسیوں نے بھی اکیس اپریل کو اپنے اپنے ووٹ ڈالے۔
پولنگ کے دوران انتہائی سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ سارے فرانس میں پچاس ہزار پولیس اہلکاروں کے ہمراہ سات ہزار فوجی بھی متعین کیے گئے ہیں تا کہ امن و سلامتی کی فضا میں لوگ رائے شماری میں شریک ہو سکیں۔
الیکشن میں اصل مقابلہ چار امیدواروں میں خیال کیا جا رہا ہے۔ ان میں ایمانویل میکروں، انتہائی دائیں بازو کی خاتون امیدوار مارین لے پین، قدامت پسند فرانسوا فیوں اور سخت گیر نظریات کے حامل بائیں بازو کے ژاں لک میلنشاں شامل ہیں۔
فرانسوا فیوں صدارتی الیکشن کی مہم شروع ہونے پر خاصے فیورٹ خیال کیے گئے تھے لیکن بعد میں چند اسکینڈلز نے ان کی مقبولیت کے گراف کو انتہائی کم کر دیا۔ میلنشاں اس وقت چوتھی پوزیشن پر ہیں۔ فیوں اور میلنشاں کا دوسرے مرحلے تک رسائی کا امکان خاصا کم خیال کیا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے بعد کہا تھا کہ اس کا فائدہ خاتون امیدوار مارین لے پین کو ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ تازہ حملے کے بعد انتخابی مہم میں اقتصادیات اور بیروزگاری کے ساتھ ساتھ ملکی سکیورٹی کو بھی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
آج کے الیکشن میں فیورٹ خیال کیے جانے والے انتالیس برس کے امیدوار ایمانویل میکروں ہیں، جو کامیابی کی صورت میں فرانس کے سب سے کم عمر صدر ہوں گے۔ وہ یورپی یونین کے حامی ہونے کے علاوہ کاروباری حلقوں میں بھی خاصے مقبول ہیں۔ اُن کی اپنی سیاسی پارٹی کا نام ’ آن دی مُوو‘ ہے۔
اس وقت پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے قبل کئی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایمانویل میکروں کو قدامت پسند امیدوار مارین لے پین پر معمولی سی سبقت حاصل ہے۔