افریقہ (اصل میڈیا ڈیسک) فرانس اور اس کے عسکری اتحادی تقریباً ایک دہائی تک افریقی مسلمان باغیوں سے لڑنے کے لیے مالی کو ایک اڈے کے طور پر استعمال کرنے کے بعد اب اِسے چھوڑ رہے ہیں۔ فرانس یہاں کیوں آیا اور اسے کیا قیمت چکانا پڑی؟
مالی میں طوراق یا طوراگ نامی قبائل ایک عرصے سے حکومت مخالف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ سن 2012ء میں ایسا ہوا کہ القاعدہ کے شمالی افریقی ونگ ( اے کیو آئی ایم) کے اراکین نے ‘طوراق بغاوت کو تقریبا ہائی جیک‘ کر لیا۔
اس وقت فرانسیسی فورسز نے ان کا مقابلہ کیا اور ان باغیوں کو پسپا کر دیا۔ تاہم سن 2015ء میں مقامی طوراق اور جہادی باغیوں نے خود کو دوبارہ منظم کیا اور مالی کے شمال اور وسط میں دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
سن 2017ء میں القاعدہ کے شمالی افریقی ونگ نے دیگر جہادی گروپوں کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد قائم کیا، جس کا نام ‘جماعت نصر الاسلام و المسلمین (جے این آئی ایم)‘ رکھا گیا۔ اسی طرح سن 2015ء میں ہی ایک دوسرا جہادی گروہ منظرعام پر آیا اور اُس نے ‘اسلامک اسٹیٹ‘ سے اتحاد کر لیا۔ اس کا نام ‘اسلامک اسٹیٹ ان دا گریٹر صحارا (آئی ایس جی ایس)‘ رکھا گیا۔
یہ سبھی گروپ اب مالی، برکینا فاسو اور نائجر کے متعدد علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے زیر کنٹرول رقبہ جرمنی کے رقبے سے بھی بڑا ہے۔ ان گروپوں کے خطے پر اثرات؟
جن علاقوں میں یہ مسلح گروہ اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، وہاں دنیا کی غریب ترین کمیونیٹیز آباد ہیں۔ ان کی کارروائیوں میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد میں عام شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ فریقین کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک جبکہ بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
ان پرتشدد کارروائیوں نے ساحل ریجن کی قوموں کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن کوئی بھی جہادی گروہ یہاں شام یا عراق کی طرح متوازی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
سابق نوآبادیاتی طاقت فرانس نے مالی میں اپنے تقریبا 2400 فوجیوں کے ساتھ اس لڑائی کی قیادت کی ہے۔ نائجر میں امریکا کے 800 طاقتور فوجی موجود ہیں اور وہ اپنے فوجی اڈے سے مسلح ڈرونز کے ذریعے کارروائیاں کرتے ہیں۔ نائجر میں جرمنی اور اٹلی کے فوجی بھی موجود ہیں۔ یورپی ممالک وہاں ‘تقبہ اسپیشل فورسز مشن‘ میں شریک ہوئے۔ اس مشن کی سربراہی بھی فرانس کے ہاتھ میں تھی لیکن اب یہ مشن بھی ختم ہو جائے گا۔
اسی خطے میں افریقی فورسز، جس کا نام ‘جی فائیو ساحل‘ ہے، تعینات ہیں۔ اس فوجی اتحاد میں مالی، نائجر، چاڈ، برکینا فاسو اور موریطانیہ کی سرکاری فورسز شامل ہیں۔ کیا غیر ملکی افواج کو کامیابی ملی؟
فرانسیسی فوجی دستوں نے ‘آئی ایس جی ایس‘ کے اعلیٰ رہنماؤں کو ہلاک کیا۔ ان میں عدنان ابو ولید الصحراوی بھی شامل ہیں، جنہیں گزشتہ برس نشانہ بنایا گیا۔ بین الاقوامی فورسز نے مقامی فوجیوں کو تربیت فراہم کی ہے۔ اس طرح ایک ایسا ‘بیک اپ‘ تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے خطے میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فورسز بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
لیکن بین الاقوامی فورسز کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ فرانس نے ساحل مشن پر سالانہ تقریباﹰ ایک ارب یورو خرچ کیے ہیں اور اس کے تقریبا 59 فوجی ہلاک ہوئے۔ علاوہ ازیں فرانسیسی فوجیوں کی غلطیوں کی وجہ سے فرانس کے خلاف نفرت میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ برس وسطی مالی میں ایک شادی پر فضائی حملے کے نتیجے میں 19 غیر مسلح شہری مارے گئے تھے۔ فرانس ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر رہا ہے۔
دریں اثناء باغیوں کے حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں۔ مقامی جمہوری حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے کے قابل نہیں تھیں۔ مالی اور برکینا فاسو میں فوجی قیادت نے اقتدار چھین لیا ہے اور انہیں وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں غیرملکی فورسز ‘خالی ہاتھ‘ واپس لوٹ رہی ہیں۔