ہم آزاد کب ہوں گے؟

Mazar e Qaid on 14 august

Mazar e Qaid on 14 august

تحریر : عتیق الرحمن
ہم ہر سال جوش و جذبے کے ساتھ وطن عزیز کی آزادی کا دن مناتے ہیں اور اس سلسلہ میں جھنڈیاں سجانے،قمقے روشن کرنے ،آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے چھوٹی بڑی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔خوش کن امر یہ ہے کہ اس دن کو بڑ چھوٹے ،بوڑھے جوان ،مردوزن سبھی خوشیوں سے سرشار نظر آتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیوں کہ ملک پاک کا ہر ایک باسی اپنے وطن سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتاہے اور یہ عین انصاف بھی ہے کہ اپنے ملک کی مٹی سے پیار اور والہانہ محبت ہونی چاہیے۔مگر یہاں ایک افسوس کن بات اور تلخ بات کرنی پڑ جاتی ہے کہ ہمیں اپنے وطن کے نام سے اس کے سبز ہلالی پرچم سے تو محبت و عقیدت ہے مگر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور اس کی خوش حالی و استحکام کے لئے بالعموم طورپر عوام و قیاد ت کوئی قابل قدر کوشش و کاوش کرنے سے مجتنب رہے ہیں۔سال کے بعد ایک دن کو خوشی سے منا لیا جاتاہے مگر آزادی کے حقیقی تصور کو سمجھنے کی کبھی سعی نہیں کی گئی۔

ملک پاک میں لوٹ کھسوٹ اقبال پر ہے،کرپشن ،چوربازاری،دہشت گردی و بدامنی،فرقہ پرستی ،سیاسی و قومی ،مذہبی و لسانی بنیادوں پر تقسیم،محبت و مودت کا باہمی رشتہ مفقود ہے ،عدل و انصاف ناپید ہے،سود خوری و قماربازاری مروج،فحاشی و عریانی اور کیا کیا انسانی و اسلامی اوراخلاقی بیماریاں ہیں کہ جو ہمارے ہیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں غربت و افلاس میں اضافہ ہورہاہے ،امیرسے امیر تر اور غریب سے غریب تر ہوتاجارہاہے،کوئی ایک فرد بشر انفرادی یا اجتماعی حوالے سے نظر نہیں آتا کہ جو اپنی ذات سے بلند ہوکر ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے مخلصانہ کوشش و جدوجہد کرے۔ ہر ایک فرد بشر اور جماعت (اکثریتی طبقہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے)کی یہ خواہش ہے کہ وہ اور اس کی جماعت ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے کام کا بھرپور فائدہ اٹھائے جس کے نتیجہ میں لوگوں کے لبوں پر اس کا ذکر خیر جاری ہوجائے۔

مگر سرمایہ دار و جاگیر دار،سردار و مولوی ،پیرو مجاہد جیسے غنڈے و درندے انسانی معاشرے کو اپنی بدترین ہوس کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ان کے سامنے کوئی بھی آذان بلالی دینے والا نہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ ملک کے سرمایہ داروں اور غاصبوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ”میں یہاں ان لینڈ لاڈوں اور سرمایہ داروں کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتاہوں جو اک ظالمانہ نظام کی پیداوار ہیں اور عوام کی مجبوریوں کا استحصال کرتے ہوئے پھلتے پھولتے ہیں یہ لوگ اس حد تک خود غرض ہیں کہ وہ کسی کی دلیل سننے کو تیار نہیں لوگوں کا استحصال کرنا ان کے رگ و پے میں بس گیا ہے۔انہوں نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے آپ جہاں کہیں بھی دیہی علاقوں میں جائیں یہ استحصال آپ کو نظر آئے گا ۔آپ کو لاکھوں ایسے انسان ملیں گے جن کو ایک وقت کا کھانا میسر نہیں ۔کیا اسی کا نام تہذیب ہے۔

Pakistan

Pakistan

کیاپاکستان کا یہی مطلب ہے؟ کیا آپ کو اس بات کا احساس ہے لاکھوںانسان استحصالی نظام کی وجہ سے ایک وقت کا کھاناکھانے سے محروم ہیں ۔اگر پاکستان کا ایسا تصور ہے تو یہ مجھے قبول نہیں” یاد رہے قائد کے فرمان کی امنگوں کے مطابق ہم آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک محترم دوست روزنامہ اعلان سحر کے چیف ایڈیٹر اور نیشنل فرنٹ آف جرنلسٹ پاکستان کے چئیرمین عامرشہباز ہاشمی صاحب نے آزادی وطن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وطن عزیز پر قربان ہونے والوں کے دکھوں کا اظہار کرتے ہوئے چند سوالات اٹھائے جنہیں قارئین کے افادہ کی خاطر رقم کیا جاتاہے۔وہ فرماتے ہیں کہ” 14اگست 1947ء آزادی پاکستان کے لاکھوں شہدا،نیزوں کی انیوں پر پروئے جانے والے بچوں کی لاشیں سوال کرتی ہیں؟ اس فرعونی نظام کو (جو ملک میں رائج ہے )بدلے بغیر آزادی کا مفہوم چہ معنی دارد؟تاریخ کی سب سے بڑی بربریت میں لاکھوں لٹ جانے والی پاکباز عصمتیں جن کے نازک اعضا کو بھی پاکستان کے نام پر کاٹ کر پھینک دیا گیا سوال کرتی ہیں وہ پتھرائی ہوئی نظریں اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بشر بشر سے پوچھتی ہیں۔

کیا آزادی کی جنگ لڑ کر پاکستان حاصل کرنے کے مقاصد پورے ہوگئے؟اللہ اور رسولۖ کے نام پر بننے والی ریاست کا فرعونی چلن جہاں غریب محنت کش کا حاصل محنت چند اہل زرسرمایہ دار کی جب میں منتقل ہوجاتاہے۔جہاں ہر سال لاکھوں لوگ خط غربت کی گھاٹیوں میں لڑھک جاتے ہیں طبقات میں تفاوت بڑھ جانے سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جہاں روٹی کے چندلقموں کے لئے لوگ اپنی نوعمر بچیوں کے دلال بن جاتے ہوں جہاں انصاف کا حصول ایک فریب کی سی حیثیت رکھتاہو۔جہاں عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ان کی ہڈیاں تک بھنبھوڑرہے ہوں جہاں عزت نفس ہرلمحہ پامال ہوتی ہوجہاں سود کا چلن ایسا ہو کہ نس نس میں بس چکا ہو۔

جہاں ریاست عوام کو علاج ،تعلیم مہیاکرنے کی بجائے چندکاروباری اشخاص کے رحم و کرم پر ڈال دیں جوعوام کا آخری خون کا قطرہ بھی نچوڑنے کے درپے ہوں ۔جہاں سوچنے پر قدغن ہو جہاں جینا وبال جان بن چکا ہو جہاںذلت مقدر ہو جہاں ابن الوقت کمینے اقتدار کی سنگھاٹنوں پر براجمان ہوں جہاں عوام کو ذات پات ،برادری ،زبان ،قومیت اور مذہب و مسلک کے نام پر تقسیم کردیا گیا ہو تو بھلا کتنے بے حس اور غافل ہو کہ اس آزادی کا جشن مناتے ہوجو تمہیں ابھی نصیب بھی نہیں ہوئی۔

ATIQ UR REHMAN

ATIQ UR REHMAN

تحریر : عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com