تحریر : مقدس ناز 14 اگست 1947 دنیا کی تاریخ میں صرف آزادی کا دن ہی نہیں بلکہ اس دن سے جڑی لاکھوں داستانیں ہیں جنہوں نے آذادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر کے آزاد ملک پاکستان حاصل کیا۔ اتنی گراں قدر تخلیق کا انداذہ وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا ۔ حصول پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔کتنی مائوں کے سامنے ان کے بچے قتل کر دیے گئے۔کتنے بے بسوں کے سامنے ان کے پیاروں کو نذرآتش کردیا گیا اور عورتوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا۔بے شمار بچے یتیم ہوئے جو ساری عمر اپنے والدین کی شفقت کے لیے ترستے رہے۔ان بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان وجود میں آیا۔
یہ آزادی کیاصرف اپنے حقوق کی آزادی کے لیے حاصل کی گئی تھی؟؟؟ آزادی تو آزاد قوم بنانے کے لیے حاصل کی گئی تھی جس میں ہر فرد مملکت ذہنی طور پر آزاد ہو٫اپنے فیصلے کرنے کے لیے خود مختار ہوکیوکہ جب ذہن ہر سوچ کی تکمیل کے لیے آزاد ہوتے ہیں تو انسان اپنے حقوق کی بلادستی کے لیے اپنی جنگ خود لڑ سکتاہے ۔اگر آزادی حاصل کر لینے کے باوجود بھی دوسرے انسانوں کی غلامی میں لگ جائے تو انسان اپنے رستے میں آ نے و الی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کا سامنا کرنے سے بھی گھبراتا ہے۔
آزادی کے70سال کے بعد بھی ہمای قوم شائداسی دوراہے پر کھڑی ہے ٫ جو حود کو آزاد تو سمجھتی ہے مگر اپنی سوچ کی آزادی کی ڈور غیروں کے ہاتھوں میں دے کر آزاد قوم ہونے کے جشن مناتی ہے ٫ یہ بات قا بل غور ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے اعلیُ تعلیم یافتہ لوگ ذہنی معذور کہلانے کے قابل ہیں جو اپنے ضمیر کا سودا کر کہ کٹپتلی بنے ہوئے ہیں٫ جن کی نہ اپنی کوئی سوچ ہے نہ ہی زندگی کا کوئی مقصد٫ مقصد ہے بھی تو اپنے پیروںکاروں کی حمایت میں کسیدے پڑنا٫ دیکھا جائے تو کبھی ہم آزاد ہوئے ہی نہیں تھے ٫ کبھی اپنے رسم ورواج کے ہاتھوں مجبور ٫ کنھی رشوت کے لیے خود کی کو غلام بناتے ہیں تو کبھی اپنی پسندیدہ شخصیت کی محبت میں غلط اور صحیی میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پرغلامی کی ہی زنجیروں میں ہی جکڑا ہوا ہے٫ کاش ہم آزاد ہو سکتے٫اپنے خقوق کی جنگ خود لڑ سکتے٫مگر ممکن تو تب ہوتا ہے جب قومیں آزاد ہونا چاہیں٫اپنے بلند خوابوں کو تکمیل دینا چاہیںلیکن جہاں غلامی پسندیدہ مشغلہ ہو وہاں آزادی کیسے ممکن ہے۔
جس قوم کے نزدیک آزادی صرف سبز ہلالی پرچم لہرانے اور سفید ملبوسات پہن کر جشن منانا ہو اور باقی کے 364 دن دوسروں کی غلامی میں گزر جائے تو امید کی کرن کیسے پھوٹ سکتی ہے٫ یہاں پر تو پارلیمنٹ کے ممبران کے آگے سر جھکتے ہیں ٫عوام اپنے فیصلے خود نہیں کر سکتی٫ قانون کے فیصلوں کواہمیت نہیں دی جاتی٫عام شہری اپنے حق کے لیے آواز نہیں کر سکتا ٫تو پھرآزادی کا جشن کیوں منایا جاتا ہے؟؟؟یہی تو وہ تمام وجوہات تھیں جس کیے لیے پاکستان کو آزاد ملک بنایا گیا تھا٫ مگر افسوس کہ ہم آج بھی آزادی جیسی نعمت کو ٹھکرا کرغلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
آج تیری آزادی کی ہے سترویں سالگیرہ٫ چارطرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہر پنہ٫ پھر بھی تیری روح بجھی ہے اور تقدیر سیہ٫ پھر بھی پائوں میں زنجیریںہیں ہاتھوںمیںکشکول٫ آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق۔۔۔
جب حکمران ٫عوام کو چند سو رپوں میں خرید کر اپنا ووٹ بنک بھرتے ہوںاور عوام کے حالاات کا مزاق اڑایا جائے٫ جہاں چند دیر کی خوشی کے لیے کورے نوٹ چمکتے ہوئے ہیرے کو مانند نظر آئیں گے تو ہم کیسے ان لٹیروں کو سزا کے کٹہرے میں کھڑا کر سکتے ہیں٫ ہم تو غلام قوم ہیں جنہں غلامی کی زندگی سے رغبت ہے٫ہم حالات کا سمجھوتا تو کر لیتے ہیں مگر ہمیں غلام بنانے والے حکمرانوں کے خلاف سچ سننا نا گوار لگتا ہے۔
میرے لکھنے کامقصد یہ ہر گز نہیں کہ ہم اس دن کو جو ش وجزبے کے ساتھ نہ بنائیںبلکہ اس دن ہم آزادی کے حقیقی معنوں سے بھی واقف ہوں٫ جب تک ہم مصنوعی خداوئوں کے خوف سے آزاد نہیں ہوں گے تو حقیقی معنوں میں بھی کبھی آزاد نہیں ہو سکتے ٫ 14 اگست کا د ن ہمیں بزرگوں اور عظیم رہنمائوں کی قربانیوں اور ان کے مقاصد کی یاد دلاتا ہے٫ ہمارے بزرگوں نے جو خواب دیکھایا تھا وہ شرمندہ تعبیر توہواتاہم ہمارے سامنے آزادی اور اخوت اور مساوات کا عظیم تصور تشنہء عمل ہے۔ہمیں آج کے دن خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنی سوچ کو غلامی کے شکنجے سے آزاد کروا کر ایک خود مختار قوم بنائیں گے ٫ خود کو جابر حکمرانوں کی پوجا نہ کرنے کا عہد کریں گے اپنے حقوق کی جنگ خود لڑیں گے٫اور دنیا کے سامنے عظیم قوم بن کر دشمن کے ناپاک ارادوں کو مسمار کریں گے۔