تحریر : عنبر جمشید، بہاولنگر عون پتا ہے اس بار میں 14 اگست پہ کیا لے رہی ہوں؟ فائزہ نے اپنے چھوٹے بھائی عون سے مخاطب ہو کر کہا۔ کیا لے رہی ہو؟ میں کوئی جن ہوں جو مجھے پتا ہو گا؟ عون نے معصومیت سے کہا۔ ہاہاہا، جب میں پری ہو سکتی ہوں تو تم جن کیوں نہیں ہو سکتے؟ فائزہ مسکرائی۔ اچھا، کیا لے رہی ہو؟ ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے۔ عون نے پوچھا۔ میں امی سے کہوں گی کہ مجھے جینز اور شرٹ لے کر دیں،نئے فیشن کے مطابق لباس لوں گی، قومی پرچم والا۔ فائزہ نے بتایا۔ اور میں امی سے کہوں گا کہ مجھے 14 اگست پر ایک ڈیک مشین لے دیں تا کہ میں پوری اونچی آواز میں میوزک بجا سکوں۔ تم جانتی ہو کہ مجھے ہنی سنگھ کے گانے بہت پسند ہیں۔ میں اس کے گانے بجاﺅں گا۔
عون نے بھی اپنا ارادہ ظاہر کر دیا۔لیکن میرے بھولے بھیا! 14 اگست پہ تو ملی نغمے بجائے جاتے ہیں۔ فائزہ نے ہلکی سی چپت عون کے سر پر لگاتے ہوئے کہا۔نہیں، میں تو ہنی سنگھ کے گانے لگاﺅں گا۔ عون اکڑ کر بولا۔ دادی جان جو تھوڑے فاصلے پر برگد کے درخت کے نیچے بیٹھی تھیں اپنی عینک اتار کر آنکھوں میں امڈ آنے والے آنسو صاف کرنے لگیں۔ انھیں اپنے بچپن کا زمانہ یاد آ گیا تھا۔ جب وہ اور باقی بچے پاکستان بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے اور ان کے ابا جان سب بچوں سے دعا کرواتے تھے۔ جلوسوں میں شرکت کرتی تھیں پاکستان بنانے کے لیے بچے پرجوش ہوا کرتے تھے۔
تو ٹھیک ہے فائزہ تم اسٹائلش ٹی شرٹ لینا اور میوزک بجاﺅں گا دھوم ہو گی 14 اگست پر۔ عون کی آواز سن کر دادی جان حال میں واپس آ گئیں اور دعا اور تسبیح میں مشغول ہوگئیں۔ 14 اگست کا دن قریب ہی تھا۔ ایک ہفتہ رہتا تھا اور لوگوں کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ فائزہ اور عون بھی اپنے پلان ترتیب دے چکے تھے۔ دوسرے دن وہ دونوں اپنی امی جان کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر رہے تھے۔
امی مجھے جینز اور گرین ٹی شرٹ چاہیے۔ فائزہ بولی۔ اور مجھے میوزک ڈیک چاہیے امی پاپا کو بتا دیجیے گا۔ عون نے بھی اپنا مطالبہ پیش کیا۔ ٹھیک ہے بچو مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ میں 14 اگست کے لیے اتنا جذبہ ہے۔ میں ضرور آپ لوگوں کی فرمائش پوری کروں گی۔ امی نے مسرت بھرے لہجے میں کہا اور دادی جان افسوس سے سر ہلانے لگیں جو آخری امید انھیں ان کی امی جان سے تھی وہ بھی دم توڑ گئی۔ ان کی امی انھیں سمجھانے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ وہ ایک بار پھر ماضی میں کھو گئی۔
کچھ دیر بعد انھوں نے فائزہ اور عون کو اپنے پاس بلایا اور کہنے لگیں۔ جشن آزادی کی حقیقت کیا ہے بچو؟ دادی نے پوچھا۔ گھر سجانا، گھومنا پھرنا، کھانا پینا، نئے کپڑے پہننا، 14 اگست کے فنکشن اٹینڈ کرنا، انجوائے کرنا، ملی نغمے سننا وغیرہ۔ فائزہ اور عون نے بیک آواز ہو کر کہا۔ نہیں میرے بچو! یہ آزادی کی حقیقت نہیں ہے۔ دادی جان مسکرائیں۔
تو پھر کیا حقیقت ہے دادی جان؟ وہ دونوں حیران ہوئے۔ آزادی کی حقیقت ہے ایثار، قربانی۔ دوسروں کو دینے کا جذبہ لانا چاہیے 14 اگست پہ۔ دادی نے کہا اور وہ دونوں سر ہلانے لگے۔ جب کوئی تحریک کسی قوم کے بچوں میں منتقل ہو جائے تو اس قوم اور تحریک کو دبانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ دادی جان نے کہنا شروع کیا۔
بچو! تم اس قوم کے معمار ہو، تمہاری سوچ مثبت اور تعمیری ہو گی تو پاکستان ترقی کرے گا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گا۔ دادی جان نے کہا۔بات فائزہ اور عون کی سمجھ میں آ گئی اور وہ سوچنے لگے کہ امی کو اپنی فرمائشیں پوری کرنے سے منع کر دیں گے اور فلاحی کام کریں گے کیوں کہ یہی تو آزادی کی حقیقت ہے جب پاکستان ترقی کرے گا؛ غیروں کے رواج اور ان کی تقلید چھوڑ دی جائے گی تو صحیح معنوں میں آزادی کی حقیقت سامنے آئے گی۔ پھر وہ سوچنے لگے کہ ہم کیا کیا کر سکتے ہیں۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں دوڑ کر اندر گئے اور جوتے اور کپڑے اور کھلونے نکالنے لگے تا کہ انھیں غریب بچوں میں بانٹ کر انھیں آزادی کا احساس دلا سکیں۔ دادی جان مسکرا کر تسبیح کے دانے گھمانے میں مصروف ہو گئیں کیوں کہ ان کی بات بچوں کی سمجھ میں آ گئی تھی۔