تحریر : عمران عمرام یوں تو کشمیر کی تحریک آزادی میں اب تک ہزاروں لوگ اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں، لیکن ان میں سے چند ایک ایسے بھی تھے جن کے خون سے آزادی کی اس تحریک کو خاص طور سے نئی زندگی اور تازگی ملی اور ان کی شہادتیں عوام میں بیداری اور شعور و آگہی پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اپنے لہو سے چمن کو سینچنے والوں میں سب سے نمایاں نام برہان وانی ہی کاہے، جن کی شہادت سے تحریک کی موجودہ نئی لہر اٹھی، لیکن ان سے پہلے بھی چند نام ایسے ہیں جن کی شہادتوں اور قربانیوں نے اپنی خوابیدہ قوم کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں پہلا اہم نام مقبول بٹ شہید کا ہے جن کی شہادت ہی سے موجودہ تحریک آزادی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ آج بھی کشمیری ان کے یوم شہادت پہ ان کو خاص طور پر یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح افضل گرو نے بھی اپنی جان دے کر تحریک آزادی کی نئی تاریخ رقم کی۔
ان کی پھانسی کے نتیجے میں اہل کشمیر کے قومی شعور میں اضافہ ہوا اور بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔ اسی طرح برہان وانی کی شہادت سے قبل کشمیری تنظیم لشکر طیبہ کے کمانڈر ابولقاسم کی بھی شہادت ہوئی جس کے نتیجے میں عوام میں نمایاں طور پر مجاہدین کے حق میں اٹھنے اور تحریک آزادی کی حمایت میں باہر نکلنے کا عمل دیکھنے میں آیا۔٣٠ اکتوبر ٢٠١٥ کو یہ خبر عام ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر کی معروف عسکری تنظیم لشکر طیبہ کے معروف کمانڈر ابوالقاسم عبدالرحمٰن کلگام کے علاقے میں بھارتی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کر گئے۔(ان شاء اللہ ) ان کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی ہزاروں کی تعداد میں مردوزن، بوڑھے اور بچے دیوانہ وار گھروں سے نکلے۔ مظاہرین نہ صرف اسلام، آزادی، پاکستان اور مجاہدین کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ سیکیورٹی فورسز پہ سنگ باری بھی کر رہے تھے۔
کشمیر کی درجنوں بہادر خواتین نے بھارتی فوج سے زبردستی ان کی نعش کو وصول کر لیا اور اس جدوجہد کے دوران درجنوں خواتین زخمی ہوگئیں۔٠٠٠،٣٠ سے زائد مردوزن اور بچے بوڑھوں نے ان کے جنازے کے اجتماع میں شرکت کی۔بھارتی فوج نے ان کے سر کی قیمت ١٠ لاکھ مقرر کی تھی جو بعد ازاں بڑھ کر ٣٢ لاکھ روپے تک جا پہنچی تھی۔ کمانڈر ابو القاسم کی شہادت کے چند مہینے بعد حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی بھی شہادت سے سرفراز ہو گئے اور جو چنگاری ابوالقاسم کی شہادت سے سلگ گئی تھی، وہ برہان کی شہادت کے بعد شعلہ بن کے اُبھری۔ کشمیر کے طول و عرض میں نوجوان اور خاص طور پر طلبا و طالبات بھارتی فوج کے خلاف صف آرا ہوگئے اور ہر طرف آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے گونجنے لگے۔ قابض فوج کے خلاف عوام کا غم و غصہ اور نفرت اس حد تک بڑھ گئی کہ عام لوگ غاصب فوج پہ جگہ جگہ پتھرائو کرنے لگے۔ برہان وانی ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے سوشل میڈیا کو تحریک آزادی کا پیغام لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ وہ اور اُن کے ساتھی کمانڈو وردی میں ملبوس اور اسلحے کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز بنا کے انٹرنیٹ پہ ڈال دیتے اور اس طریقے سے مسلح جدوجہد نئی نسل کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہونے لگی۔لوگ ”کشمیر بزور شمشیر ”کا نعرہ لگانے اور اس نظریے کی طرف آنے لگے۔ وہ صحیح معنوں میں اپنی قوم کے ہیروتھے، فلموں،ڈراموں اور ناولوں والا ہیرو نہیں بلکہ حقیقی زندگی کا ہیرو… انھوں نے اپنا لہو بہا کر قوم کو یہ پیغام دیا کہ سروں کی فصلیں کٹائی تو جاسکتی ہیں مگر ان کو ایک غاصب و جابر ملک کی فوج کے آگے غلامانہ طریقے سے جھکایا نہیں جا سکتا۔ ان کی شہادت سے سات دہائیوں سے حق خود ارادیت کے لیے لڑنے والے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔
حال ہی میں برہان وانی کے جانشین تصور کیے جانے والے کمانڈر سبزار احمد کی شہادت کے بعداُن کے جنازے میں عوام کی بہت بڑی تعداد میں شرکت دیکھنے میں آئی۔ لوگوں کی شرکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی مجاہد فیضان کی نماز جنازہ کئی مرتبہ ادا کی گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے سخت بندشوں کے باوجود لوگ انتہائی جوش و خروش سے جنازے میں شریک ہوئے اورمجاہدین آزادی کے ساتھ اپنی عملی محبت کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بعد شہید ہونے والے جہادی تنظیم لشکر طیبہ کے مجاہدکمانڈرناصروانی،عادل مشتاق میر اور جنید متو کی نماز جنازہ میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے اس موقعے پہ وادی میں کرفیو کا سماں پیدا کرتے ہوئے بڑی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کیا تھا، تاہم ان کی طرف سے ڈالی گئی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں کشمیریوں نے جہاد اور مجاہدین کے ساتھ محبت و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان شہدا کے جنازے میں شرکت کی۔ دوسری طرف آزادی کے حق اور بھارت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر انڈین آرمی پل پڑی جس کے نتیجے میں کئی نوجوان زخمی ہوگئے۔ ان تمام قربانیوں، رکاوٹوں اور ریاستی جبرو تشدد کے باوجود کشمیری قوم کوآزادی کے مطالبے اور بھارت مخالف تحریک سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکا۔
عام لوگ اگر کچھ اور نہ کرسکیں تو کم ازکم سوشل میڈیا کے ذریعے ان پہ ہونے والی زیادتیوں اور ظلم و جبر کو زیادہ سے زیادہ عام لوگوں کے علم میں لانے کا اہتمام کرے اور ان کا موقف اور آزادی کا مطالبہ پوری دنیا تک پہنچانے میں مدد کرے۔ اگر کچھ اور نہ بھی کر سکیں تو یہ کام تو ہر کسی کے بس میں ہے کیونکہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا تک آج کل ہر دوسرے تیسرے شخص کی رسائی ہے۔سوشل میڈیا آج کے دور میں ایک بہت بڑی طاقت بن چکی ہے اور اس کے موثر استعمال سے نہ صرف پوری دنیا کے عام لوگوں بلکہ حکومتوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں تک بات پہنچائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اسے معمولی یا غیر اہم چیز نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کی طاقت اور اثر پزیری سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے استفادہ کرنا چاہیے۔ یہ سوشل میڈیا ہی تو تھا جس کے استعمال سے برہان نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو جگانے کی اپنی سی کوشش کی۔
Burhan Wani
ان تک اپنا پیغام اس حد تک موثر طریقے سے پہنچایا کہ نہ صرف ان کی زندگی میں بہت سے نوجوان تحریک آزادی کا حصہ بن گئے بلکہ وہ عوام الناس میں اس قدتر محبوب و مقبول ٹھہرے کہ ان کی شہادت کے بعد پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی اوران کی یہ قربانی کشمیر کی تحریک آزادی کی نشاط ثانیہ کا باعث بنی۔اسی طرح پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک دسترس رکھنے والے با شعور اورباضمیر لوگ اپنی اپنی صلاحیت اور دائرہ کار کے تحت ان آوازوں کو دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ قومی اور خاص طور پر دینی جماعتیں عوامی طاقت کے مظاہرے کے ذریعے نہ صرف حکومت وقت تک موثر انداز میں اس مسئلے پہ اپنی بات پہنچائے بلکہ ان کی ساری تگ و دو کی خبریں میڈیا کے ذریعے باہر کے ملکوں تک پہنچے اور اس مسئلے کی سنگینی کے ادراک کا ذریعہ بنے تاکہ باہر کے ملکوں کی حکومتیں بھی عالمی سطح پر اس کی اہمیت تسلیم کرکے اس مسئلے کے حل کی طرف متوجہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے ہم میں سے ہر کوئی اپنی مقدور بھر کوشش کرے اور مادی، مالی، اخلاقی اورعملی تعاون کرے اور ذمہ داریاں نبھائے تو امید ہے کہ مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت مزید بڑھے گی اور ایک بہتر کل کی امیدیں روشن ہوں گی۔ لیکن اگر پہلے کی طرح سستی و کاہلی برقرار رہی اور نہ صرف حکومتیں، جماعتیں اور ادارے بلکہ عام لوگ بھی ٹال و مٹول سے کام لیتے رہیں تو کچھ عجب نہیں کہ جوروجبر کی اندھیری رات مزید طویل ہو جائے اور آزادی کی صبح کا سورج طلوع ہونے میں اور دیر ہو جائے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلے کی سنگینی کو سمجھا جائے اور اس کے حل کے لیے تمام تر ممکنہ کوششیں اور وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ ظلم اور غلامی کی اندھیری رات کا خاتمہ ہونے کی کوئی سبیل پیدا ہو۔