تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری آزادی ٔصحافت ہی نہیں بلکہ عام شخص کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے بنیادی حقوق آئین پاکستان کی روح ہیںمگر ہر جابر و آمر حکمران نے مخالفین کی زبان بندی کرنے کی مقدور بھر کوششیں ضرور کی ہیں تاکہ حکمرانوں کے خلاف کوئی ذی شعور بول تک نہ سکے اخبارات و الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کے لیے موجودہ حکمرانوں نے بھی سیاہ مسودہ تیار کرلیا ہے مگر وزارت اطلاعات تک کو بھی پوچھیں تو انھیں بھی اس کا پتہ تک نہ ہے ایسی خفیہ دستاویز صحافت کا گلہ گھو نٹنے کے لیے تیار کر لی گئی ہے جس سے ملک میں ہی مکمل گھٹن محسوس ہوگی ۔اور اپوزیشن تو کیا کسی عام فرد کی بھی معمولی اختلافی بات بھی نہ چھپ سکے گی۔حکمرانوں کے حواریوں نے جو اصل مسودہ تیار کر لیا ہے وہ تو اسمبلی میں اکثریت کے زور پر منظور کروالیا جائے گااور حال ہی میں پاس کردہ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں ترامیم کی طرح سینٹ سے بھی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اسے بھی منظورکرانا حکمرانوں کے لیے بائیں ہاتھ کا کام سمجھیں اور لوگوں کی گردنوں کے گرد مکمل شکنجہ کس جائے گا مگر سابقہ آمروں کی طرح ضروری نہیں ہے کہ پریس کا گلہ دبانے کی یہ کوششیں عملاً کامیابی سے بھی ہمکنار ہوسکیں۔
اخبارات کی دو صدیوں کی تاریخ سامنے گھومنے لگ جاتی ہے برصغیر میں 1780میں پہلا اخبار شائع ہوا پھر متعدد زبانوں فارسی ،عربی ،اردو ،ہندی ،انگریزی میں اخبار رسائل چھپنے شروع ہوگئے انیسویں صدی کی ابتداء میں جب ٹیپو سلطان اور ہندوستانی راجے مہاراجے انگریز استعمار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے تو اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف بھی اخبارات لکھنے لگے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے1822میںہی اخبارات کی اشاعت کے بارے میں کالا قانون نافذ کرڈالا کہ بغیر پرمٹ لیے کوئی پرنٹنگ پریس کوئی اخبار شائع نہیں کرسکے گا اور اخبارات سینسر ہونے لگے جس خبر کو چاہا ممنوع قرار دے ڈالا اور ایسی خبر کی اشاعت پر ایڈیٹر ،پبلشر پرنٹر کو ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔قیدو بند کی صعوبتیں بھی وا ہوگئیں پھر ایوبی آمریت کے دور میں پریس اینڈ پبلیکیشنزآرڈیننس 1960نافذ ہوا تمام اخبارات کو نئے ڈکلریشن داخل کرنا تھے اور انٹیلی جینس بیورو کی کلئیرننس کے بغیر کسی کو پرمٹ جاری نہ ہو سکتا تھا۔
قبل ازیں بھی1959میں ایوبی حکومت نے پرو گریسو پیپرز لمیٹڈ کے اخبارات پاکستان ٹائمز ،امروز ،لیل و نہار کو سرکاری تحویل میں لے کر ان پر سخت سینسر نافذ کردیا تھا۔1963میں اسی آرڈیننس میں مزید سخت ترامیم کرڈالی گئیں جن کے ذریعے قومی صوبائی اسمبلیوں اور اعلیٰ عدالتوں کی رپورٹنگ ممنوع قرار پائی اور یہ کہ اسمبلیوں کے سپیکروں کا ہینڈ آئوٹ ہی چھا پا جا سکتا تھا اخباری مالکان ایڈیٹرز اور صحافیوں نے ان کالے قوانین کے خلاف سخت جدوجہد کی اور قربانیاں دیں جیلوں کی سختیاں بھگتیںاخبارات نے ہڑتالیں کیں جلسے جلوس کیے۔مگر چند ترامیم کے ساتھ سیاہ قوانین نافذ رہے1973کے آئین کی شق نمبر19کے تحت آزادیٔ صحافت کوبنیادی انسانی حق قرار دیا گیاغلام اسحاق خا ن نے بعد ازاں عبوری دور میں اس قانون کو ختم کرکے رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس نافذ کیاضیاء الحق کے دور میں تو خود حکمرانوں کے متعین کردہ افراد چھپنے سے قبل رات گئے اخبارات کو چیک کرتے تھے اور جو خبر بھی چاہتے وہ اکھاڑ ڈالتے تھے صحافیوں کو آزادی صحافت کی جدو جہد پر ٹکٹکیوں پر باندھ کر کوڑے اسی دور میں مارے گئے محترمہ اور نواز شریف کے درمیان 2005میں ہونے والے میثاق جمہوریت معاہدے کے تحت کی جانے والی اٹھارویں ترمیم میں شق 19-Aکے تحت عوام کے جاننے کے حق کی ضمانت دی گئی اس کے باوجود موجودہ حکمرانوں کی طرف سے پریس کو جکڑنے اور اس کی آزادی کو مکمل سلب کرنے کے لیے جو مسودہ تیار کی جا رہا ہے اس میں آزادیوں کو کچلنے والے شیطان ذہن افراد نے دماغ سوزی کرکے ایسے قوا نین تیار کیے ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہ چھپ سکے اور سب پریس میڈیا صرف حکمرانوں کی شان ہی میں رطب السان رہے شاید ایسے افراد کو یاد نہیں کہ متعدد ڈکٹیٹر ایوب یحییٰ بھٹو ضیاء الحق اگلی دنیا کو سدھار گئے مگر انسانوں کے گفتار اور اظہار آزادی کو شکنجوں میں نہ جکڑ سکے۔
اب کی بار تو آزادی صحافت کو کچلنے کی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت بھی شدید ہوگی کہ جدید ترین دور میں جب کہ پوری دنیا سکڑ کر ایک محلہ یا گائوں بن چکی ہے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کیا ہی نہیں جاسکتا۔فیس بک ،یو ٹیوب ،ٹویٹر وغیرہ درجنوں سوشل میڈیاہمہ قسم پراپیگنڈوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیںجمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے ذرائع ابلاغ کی آزادی کو ہی لازمی امر سمجھا جاتا ہے آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (APNS)،کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز ((CPNEاور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)جیسی تنظیمیں موجود ہیں جو کہ اخبارات اور صحافیوں کے مفاد کے لیے ہر دم کوشاں رہتی ہیں انہیں اظہار رائے پر لگائی جانے والی موجودہ مذموم کوششوں کا بھی بخوبی علم ہے۔اگر یہ سارے متحد ہو کر حکمرانوں پر مزید دبائو بڑھائیں تو حکومت چکنے گھڑے کی طرح گھوم جائے گی اور اظہار رائے پر پابندی لگانے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔
اگر خدانخواستہ صحافت پر پابندیوں کا سیاہ دور شروع بھی ہوگیاتو عوام الناس اپنی خبریں نہ چھپنے اپنے اور علاقائی مسائل اجاگر کرنے والے مقالوں ،کالموں کو نہ دیکھ کر اور اپوزیشن جماعتیں اپنی خبروں کا بلیک آئوٹ قطعاً برداشت نہ کریں گے اور خودبخود میدان عمل میں آکر ان نام نہاد صحافتی پابندیوں کی بنائی گئی ریت کی دیوار کو گراڈالیں گے مگر ایک بات جواشدضروری ہے کہ عوام کسی صورت کردار کشی ،گالی گلوچ اور برے ناموں سے یاد کرنے جیسی خبروں کی اشاعت بالکل نہیں چاہتے بحرحال صحافت کے کارپردازوں اور حکمرانوں کو مل کر صحافت کو اخلاقیات کا پابند بنانا اور کردار کشی سے منع کرنا ہو گا وگرنہ موجودہ سیاستدانوں کا آپس میں وہ سر پٹھول ہوگا کہ تاریخ میں یاد رہے گا۔پھر سبھی کہیں گے کہ بہت دیر کردی مہربان آتے آتے۔