تحریر : ماجد امجد ثمر صحافیوں کی ایک تنظیم ( پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ) کا قیام آذادی کے چوتھے سال 1950 ء میں عمل میں آیا۔اس تنظیم کے صحافیوں نے کچھ ضابطہء اخلاق تشکیل دیئے جس پر انہوں نے عمل بھی کیا اور مو جودہ دور کے صحافی بھی اسی پر عمل کرنے پابند ہیں ۔ مگر پھر آج کیوں میڈیا پر کرپشن کا بہتان لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کو بلیک میل کر کے اپنے مقدس پیشے کا غلط استعمال کر کے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ اس بات کا مشاہدہ بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے کہ بہت سے ٹی وی چینلز اور اخبارات صرف ذاتی مفاد اور اشتہارات کی لالچ میں جانبداری کا مظاہرہ کرتے عام نظرآتے ہیں۔ کئی نامور صحافی تاحال کرپشن میں بے مثال ہیںوہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اس مقدس پیشے کی ساکھ کو بھی مجروح کر رہے ہیں۔کسی بھی معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں میڈیا ایک اہم کردار ادا کرتی ہے ایک مسلم معاشرے میں ہندوئو کلچر اور رسومات کی جھلک بھی میڈیا ہی کی مرہون منت ہے۔
جہاں میڈیا کے چند ایک منفی پہلو دکھائی دیتے ہیں وہاں اس کے مثبت پہلوئوں کی بھی بھرمار ہے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافت کی اہمیت سے کسی بھی طور انکار ممکن نہیں۔کسی بھی ملک میں معاشی ترقی میڈیا ہی کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔اگر ہم ہلکی سی نظر تاریخ پر ڈالیںتوپتہ چلے گا کہ ماضی میں پسماندہ یا غریب ممالک کے لوگ جب ایک عرصے تک اپنی بدحالی میں مست رہے اور وہ اپنی غربت ،جہالت ،بیماریوں یا دیگر مسائل ذندگی کو اپنے رب کی طرف سے ایک آزمائش سمجھ کر قبول کرتے رہے تو وہاں خاص طور پر میڈیا ہی نے آ کر ان توہم پرست لوگوں کو فرسودہ خیالات سے آذاد کروانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اور ان ممالک کی عوام میں ایسا شعور بیدار کیا کہ وہ بھی دوسرے کامیاب ممالک کی طرح جدید سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھا کر اپنا معیار ذندگی کو بہتر بنائیں۔ گویا یہ تبدیلی کی امنگ میڈیا ہی کی بدولت ممکن ہوئی اور ریڈیو ، ٹی وی، فلم اور اخبارات کے زریعے کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے رہن سہن اور طریقہ ہائے ذندگی سے متعارف ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں بھی کسی ملک کی معشیت میں بہتری لانے میں میڈیا ایک اہم جز ہے۔
ابلاغ کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی۔ابتدائے دنیا سے ہی ہر جاندار اپنے اپنے مخصوص انداز میں ایک دوسرے سے ابلاغ کرتا آ رہا ہے۔ اللہ تعالی نے بھی انساں سے ابلاغ کیا ہے جس کا واضح ثبوت قرآن پاک کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ گویا ہر جاندار اپنی روذمرہ ذندگی میں ابلاغ کے عمل سے گزرتا ہے۔چرند پرند یا جانوروں تک کو جب اپنے دشمن کے حملے کا ڈر ہو تو وہ بھی اپنے منہ سے مخصوص آوازیں نکال کر اپنے دیگر ساتھیوں کو فورا خطرے سے آگاہ کرتا ہے۔ یوں ایک خبر یا پیغام کو کسی دوسرے تک پہنچانا ابلاغ کہلائے گاخواہ اس کو پہنچانے میں اشارات،علامات یا کوئی مخصوص ذبان استعمال کیوں نہ ہو۔
Women Journalist
خصوصا پاکستان کی خواتین تو پیدائشی طور پر ہی اس قدرتی خوبی سے مالا مال ہوتی ہیں یعنی جیسے کسی ایک گھر میں ہونے والے واقعے کی خبر کسی دوسرے گھر تک پہنچانے میں اپنے ابلاغی فرائض بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتی ہیںاور اکثر خواتین تو اپنے اس کام میں اتنی تیزی دکھاتی ہیں کہ روشنی کی رفتار سے بھی آگے نکل جاتی ہیں۔ چنانچہ آسان لفظوں میں یوں کہ ان کا بھی یہ عمل ابلاغ ہی کہلائے گا اور اگر میں اس کو گھریلو صحافت بھی کہہ دوں تو شائد ہر گز بے جا نہ ہو گا۔ ایک دفعہ ایک سڑک کنارے ایک موٹا تازہ شخص اپنے بازوئوں کو اس طریقے سے ہلاتا ہوا کہ جیسے پریڈ کی جائے بڑے آزادانہ طریقے سے جا رہا تھا تو اس لمحے اسی شخص کی مخالف سمت سے ایک زرا لمبی ناک رکھنے والا شخص بھی چلا آرہا تھااب ہوا یوں کہ یہ لمبی ناک والے صاحب جیسے ہی اس موٹے آدمی کے قریب پہنچے تو تو اس موٹے آدمی کے بے لگام بازوئوں کے ساتھ تیار شدہ مکا اس لمبی ناک والے شخص کی ناک پر جالگا ۔اس گستاخی پر لمبی ناک والا شخص جب دوسرے پر برہم ہوا تو بجائے اس کے کہ وہ موٹا آدمی کسی قسم کی کوئی شرمندگی محسوس کرے جوابا کہنے لگا کہ تم کون ہوتے ہو مجھ پر پابندی لگانے والے میں اس ملک کا آزاد شہری ہوں اور یہ میرا حق ہے کہ میں جیسے چاہوں چلوں،بھاگوں یا دوڑوں وغیرہ وغیرہ تو اس پر اس تشدد زدہ ناک والے صاحب نے بڑے اطمینان سے ایک بات کہی کہ اوہ بھائی میاں : میری بات سنو آپ کی ہر طرح کی آزادی کی حد وہاں پر ختم ہو جا تی ہے جہاں سے میری ناک کی حد شروع ہوتی ہے۔ہر شخص آزادی کا حق رکھتا ہے مگر اس کے ساتھ وہ آزادی کی حد بھی رکھتا ہے۔
بالکل اسطرح ہی میڈیا کی آزادی کی حد وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے وطن کی عزت کی حد شروع ہوتی ہے۔ یہ ناک ہی تو ہوتی ہے جسے عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اور جس کو کٹوانا کوئی بھی غیرت مند شخص گوارا نہیں کرتا۔ ہماری افواج و ادارے بھی ہمارے ملک کی ناک ہی ہیں جو ہمارے لئے وقار کی علامت ہیں۔ آذادی صحافت پر قفل لگانا یوں ہے کہ جیسے انسانی ذہن کی آزاد سوچ کے کھلے دریچوں کو بند کر دیا جائے۔ پاکستان میں صحافت ہرآمریت کے دور میںمشکلات کا شکار رہی اور ہر آمر نے اپنے طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے صحافت کی آذادی کے حق کو دبانے کی ناکام کوشیش کی۔حق اور سچ کی آواز اٹھانے کی پاداش میں ماضی سے لے کر اب تک کئی صحافیوں انتہائی کو ظلم و ستم کے مراحل سے دوچارہونا پڑا۔دیکھیں کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور عموما ہر ردعمل اپنے عمل ہی کا ہم شکل ہوتا ہے۔ جب ایک صحافی اپنے مقدس پیشے سے مخلصی کا ثبوت دیتے ہوئے بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتا ہے تو اسے بعض اوقات اس وجہ سے انتہائی خطرناک نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔
اگر ایک طرف سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو دوسری طرف ایک صحافی بھی کسی سپاہی یا مجاہد کی طرح ہوتا ہے جو اپنے قلمی ہتھیار کو ہمیشہ باطل کے خلاف استعمال کرتا آیاہے اس اگر ماضی میں نظر ڈالیں تو اس ملک کو آزاد کروانے میںصحافت نے بھی آزادی کی جنگ شانہ بشانہ لڑی۔ گویا پاک صحافت ایک غازی سپاہی ہے جس نے اس ملک کو تو آزادی کی بہاریں دکھا دی لیکن اس کی اپنی آزادی کو بارہا سلب ہونا پڑا۔ اگر اس ملک میںجب میڈیا پر پابندی کی باتیں ہوں تو تصور کریں کہ ان شہدا صحافیوں کی روح پر کیا گزرتی ہو گی جنہوں نے اس پیشے کے علم کو بلند رکھنے کی خاطر اپنی قیمتی جانوں تک کا نذرانہ پیش کیا۔ صحافت ایک ایسامقدس پیشہ جو حق کی آزادی کے لئے آواز اٹھاتاہے اور اگر حق کو قید کر لیا جائے تو پھر صرف باطل کا راج ہو گا۔لہذا کوئی بھی ملک اس وقت تک مکمل آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس ملک میں صحافت مکمل آزاد نہ ہو۔میڈیا چاہے پریس ہو یا الیکٹرانک اس کا کام ہے کہ یہ غیر جانبدار رہتے ہوئے لوگوں کی درست سمت میں رہنمائی کرے ایسی رہنمائی جس میں ملک و قوم کے لئے فلاح کا عنصر شامل ہو او ر ہماری موجودہ صحافت کو اخلاقیات کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔