اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) تین مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کے دن کے حوالے سے پاکستان میں ’’قتل، ہراساں کیا جانا اور حملے: پاکستان میں صحافیوں کے لیے مشکلات‘‘ کے عنوان سے پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 2019-20 آج انتیس اپریل کو جاری کر دی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ملکی دارالحکومت اسلام آباد صحافیوں کے لیے کام کرنے کی سب سے خطرناک جگہ بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ اکانوے میں سے ایسے اکتیس واقعات اسلام آباد ہی میں ریکارڈ کیے گئے۔ صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر رہا جہاں گزشتہ برس ایسے چوبیس کیسز ریکارڈ ہوئے جبکہ پنجاب میں بیس، خیبرپختونخوا میں تیرہ اور بلوچستان میں ایسے تین واقعات سامنے آئے۔
اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹارگٹ کیا جانے والا میڈیم ٹیلی وژن ہے۔ اکانوے میں سے تریسٹھ مجرمانہ واقعات ٹیلی وژن صحافیوں کے خلاف ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے بعد پرنٹ میڈیا دوسرے نمبر پر رہا، جہاں پچیس کیسز سامنے آئے جبکہ آن لائن صحافیوں کے خلاف جرائم کے تین واقعات ریکارڈ کیے گئے۔
پاکستان میں میڈیا اور میڈیا کارکنوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر اور سینئر صحافی اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس رپورٹ کے مندرجات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا، ”پاکستان میں صحافت کو کنٹرول کرنے کی غرض سے سینسرشپ کے مختلف طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں صحافیوں کا قتل، انہیں دھمکیاں دینا اور ہراساں کیا جانا بھی شامل ہیں۔ اگر چیدہ چیدہ واقعات کو دیکھیں تو 91 میں سے سات صحافیوں اور ایک بلاگر کے قتل کے علاوہ دو کے اغوا، نو کی گرفتاری، دس پر حملے، تیئیس کو دھمکیوں، دس کے کام کو سینسر کیے جانے اور آٹھ صحافیوں کے خلاف قانونی مقدمات درج کیے گئے گئے۔ اس کے علاوہ دیگر میڈیا نمائندوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔‘‘
اقبال خٹک نے مزید بتایا، ”چاروں صوبوں میں کوئی بھی جگہ صحافیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے کیونکہ صحافیوں پر حملے ہر جگہ ہو رہے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کا ان حملوں کے پیچھے نمایاں کردار رہا ہے۔ اکانوے میں سے بیالیس فیصد کیسز تو میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف کی گئی خلاف ورزیوں پر درج کیے گیے۔ ان متاثرہ کارکنوں کے خاندانوں کا ماننا ہے کہ ان حملوں میں سیاسی پارٹیوں اور مذہبی اور جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ساتھ ایسے بااثر لیکن نامعلوم افراد بھی شامل تھے، جو دھمکیاں دیتے رہے تھے۔‘‘
ملتان کی ایک سینئر خاتون رپورٹر انیلا اشرف نے، جو سولہ سال تک کام کرنے کے بعد جبری طور پر بیروزگار کر دی گئیں، ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ”پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک نہ تو صحافت آزاد ہے اور نہ ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، کسی عام شہری کو بھی نہیں۔ موجودہ حالات میں مختلف پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، کوئی بھی شخص اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار سوشل میڈیا یا میڈیا پر بھی نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ خبر بھی فلٹر ہو کر نشر کی جا رہی ہے۔ فی زمانہ تو سمجھ لیں کہ سول مارشل لا سے کام چلایا جا رہا ہے۔ تو صحافت آزاد کیسے ہو سکتی ہے؟ جب ادارے آزاد نہیں ہوں گے تو آزادی صحافت کہاں سے آئے گی؟ ٹی وی چینلز کی بھی سرکاری ٹی وی جیسی شکل بنا دی گئی ہے اور یہی حال اخبارات کا بھی ہے۔ صحافیوں کو مسلسل بیروزگار کیا گیا ہے۔ ان کے گھروں میں اچانک ایک خط آ جاتا ہے کہ آج سے آپ کی نوکری ختم۔ سالہا سال کی سروس یکدم ختم ہونے سے آج کل ایسے بہت سے سفید پوش صحافی ہیں، جن کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
انیلا اشرف نے مزید بتایا، ”بس ایک مخصوص طبقہ بیٹھا ہوا ہے۔ سینئر فیلڈ رپورٹرز، جو اصل صحافی ہیں، ان کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ان کی جگہ ایسے من پسند لوگ بھرتی کیے جا رہے ہیں، جن کا صحافت سے دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ تو پھر کہاں باقی بچتی ہے آزادی صحافت؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافیوں کے لیے ایک باقاعدہ سروس اسٹرکچر بنایا جائے، قوانین بنائے جائیں، میڈیا کارکنوں کو شخصی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جائے۔ مطلب یہ کہ ایسے اقدامات کیے جائیں، جن سے پاکستان میں آزاد صحافت عملی طور پر فروغ پا سکے۔‘‘
پاکستان میں قانونی اصلاحات کے موضوع پر کام کرنے والی ایک تنظیم ‘ارادہ‘کے سربراہ آفتاب عالم نے ڈی ڈبلیو کو اس تازہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا، ”مئی دو ہزار انیس سے لے کر اپریل دو ہزار بیس تک آٹھ صحافی قتل ہوئے اور اسلام آباد صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک شہر ثابت ہوا۔ یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ اتنے زیادہ واقعات ہو رہے ہیں اور بالکل ناقابل فہم بات یہ ہے کہ حکومت اس بارے میں کچھ نہیں کر رہی۔ گزشتہ چند برسوں سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی بات ہو رہی ہے، جس کی پچھلے سال مارچ میں اصولی منظوری بھی دے دی گئی تھی جو کہ وزارت داخلہ کا تیار کردہ مسودہ تھا، لیکن اس کی وزیر اعظم کی حال ہی میں برطرف کردہ مشیر خاص فردوس عاشق اعوان نے مخالفت کی تھی۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ یہ بل فوری طور پر منظور کیا جائے تاکہ صحافیوں کو تحفظ مل سکے۔‘‘
ایک پاکستانی صحافی نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کی صورتحال بہت پریشان کن ہے۔ صحافتی آزادی خطرے میں ہے۔ صحافیوں کو بلاخوف قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ آج کل کی سینسرشپ آمریت کے دور کی سینسرشپ سے بھی بدتر ہے۔ یہ غیر اعلانیہ مارشل لا ہے۔ سچ لکھنے اور بولنے کے جرم میں صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے، غائب اور قتل کر دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ لیکن ایسا کرنے سے بھی سچ ختم نہیں ہوتا۔ آج کا پاکستانی صحافی سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے کیونکہ جب صحافیوں پر حملے ہوتے ہیں تو خود ان کے اپنے آجر میڈیا ادارے بھی ان کی مدد یا حمایت نہیں کرتے۔ خود مجھ پر بھی دو بار حملہ ہو چکا ہے۔ خاص طور پر کشیدگی سے متاثرہ علاقوں میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔‘‘