تحریر : علی عبداللہ آزادی رائے کسی بھی شخص کو اپنے خیالات اور بیانات پر مکمل آزادی دینے کا نام ہے _ دیگر انسانی حقوق کی طرح آزادی رائے بھی انسان کا بنیادی حق ہے _ چونکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اسکی رائے اور نظریات کا ہر سطح پر احترام کیا جائے اس لیے کسی حکومت یا تنظیم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی شکل میں بھی رائے دینے والوں پر پابندی عائد کرے _ مذہب ہو یا سماجی معاملات, حکومتی پالیسیاں ہوں یا مختلف شخصیات ,معاشرے میں رہنا والے ہر فرد کی ان پر رائے آنا ناگزیر ہے _ 1789 کے انقلاب فرانس کے ایک اعلامیے کے مطابق آزادی رائے ہر انسان کا قیمتی حق ہے _ ہر شہری لکھنے , بولنے اور کسی بھی قسم کا مواد شائع کرنے میں آزاد ہے لیکن ان میں کسی بھی بداخلاقی پر وہ قانونی طور پر جوابدہ ہو گا۔
دور جدید میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو بے لگام کر دیا ہے _ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ذریعے ہر عام و خاص اپنی سمجھ و علم کے مطابق چند سیکنڈوں میں ہی اپنے خیالات دنیا بھر میں پھیلا سکتا ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے تعمیری اور مثبت کام سر انجام دیے جاتے لیکن یہاں زیادہ تر آزادی رائے کے نام پر لوگوں نے دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور تنقید برائے تخریب کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے _ عقلیت پسندی کے نام پر گمراہ کن نظریات کا اجتماع اور مذہبی و معاشرتی اقدار سے بیزاری کا اظہار سوشل میڈیا پر عام دیکھا جا سکتا ہے۔
مغرب آزادی رائے کا سب سے بڑا علمدار سمجھا جاتا ہے جہاں کسی بھی معاملے پر رائے کے اظہار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے _ اسی بنیاد پر مذہب کو خصوصاً اسلام اور رسالت کو تضحیک کا نشانہ بنانا عام ہو چکا ہے _ تاریخ کے چند اوراق پلٹیں تو یہی یورپ ایک وقت میں آزادی رائے کا سب سے بڑا دشمن دکھائی دیتا ہے _ کیتھولک چرچ کی جانب سے لگائی گئی ظالمانہ پابندیاں اور ذاتی رائے کی حوصلہ شکنی کسی سے چھپی ڈھکی نہیں ہے _ گلیلیو, برونو, اور کاپر نیکس سمیت کئی سائنسدانوں کے نام تاریخ کے صفحوں پر عیاں ہیں جن کو صرف اس بنا پہ پھانسی دے دی گئی کہ ان کے نظریات چرچ سے متصادم تھے _ انہوں نے اپنے دور میں جدید سائنسی ترقی کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی لیکن چرچ نے اسے توہین سمجھ کر ان لوگوں کو ہی موٹ کے گھاٹ اتار دیا _ آجکل آزادی رائے مغرب میں صرف اسلام کی توہین کو ہی سمجھ کر اس پر بڑے شوق سے عمل پیرا ہوا جاتا ہے _ کبھی گستاخانہ خاکے شائع کیے جاتے ہیں تو کبھی قران مقدس کی نے حرمتی کی جاتی ہے _ باطل سے ان سب کی توقع ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔
Justice Shaukat Aziz Siddiqui
اسلام نے آزادی رائے کو مقدم رکھا ہے اور ہر اس رائے کی حوصلہ افزائی کی ہے جو باعث اصلاح اور تعمیری ہو _ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ کلمات خیر کہے یا پھر خاموشی اختیار کرے _ اسلام نے ہر اس لفظ اور جملے کی مذمت کی ہے جو عام لوگوں کی عزت نفس کو مجروح اور کسی مذہب کی دل شکنی کرتا ہو _ اسلامی تاریخ میں بے شمار واقعات ایسے ہیں جن میں عام عوام نے خلیفہ وقت پر تنقیدی رائے دی _ لیکن یہ رائے ہمیشہ برائے اصلاح ہوا کرتی تھی نا کہ برائے توہین _ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں جہاں اسلامی روایات اور دینی حمیت کو سبقت دی جاتی ہے وہیں چند عناصر آزادی رائے کے نام پر بلا روک ٹوک مذہب اور مقدس ہستیوں کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں _ سوشل میڈیا پر مغربیت سے مرعوب ایسے کئی گروپ دیکھے جا سکتے ہیں جن پر گستاخانہ مواد موجود ہے _ پاکستانی فری تھنکرز گروپ, موچی اور بھینسا سمیت کئی پیج ایسے ہیں جن پر سر عام نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم, صحابہ کرام اور دیگر مقدس ہستیوں کے بارے میں کھلے عام توہین جاری ہے _ متعدد بار ان پیجز کی وجہ سے حالات بگڑے بھی ہیں لیکن پیمرا کی مسلسل خاموشی باعث افسوس ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے قوم و مذہب کی لاج رکھ کر جرات مندانہ فیصلہ سنایا ہے کہ سوشل میڈیا سے تمام گستاخانہ مواد فوری ہٹایا جائے _ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور یہاں کسی بھی فرد کو مقدس ترین ہستی اور مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دی جائے گی _ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان کے لیے حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب کسی کی شخصیت نہیں ہونی چاہیے _ یہ فیصلہ سنا کر انہوں نے اپنے عہدے کا حق ادا کر دیا ہے _ اور ساتھ ہی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس ملک میں عبداللہ بن ابی, کعب بن اشرف, تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی جیسے خیالات کے حامیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں _ سوشل میڈیا کو کسی بھی صورت اس مقصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا _ پاکستان کو ایسے ہی جذبہ ایمانی سے لبریز اور دینی حمیت رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے _ الحمداللہ جناب شوکت عزیز صدیقی صاحب کے فیصلے کو دیکھ کر یقین ہو گیا ہے کہ وطن عزیز ابھی دینی غیرت رکھنے والوں اور مذہبی روایات کی پاسداری کرنے والوں سے محروم نہیں ہوا ہے۔
بلاشبہ خیالات اور بیانات کی آزادی ہر فرد کا حق ہے اور اسے استعمال بھی کرنا چاہیے لیکن اس حق سے مذہبی شخصیات کی توہین ہو اور تنقید برائے تخریب ہو یہ ہرگز قابل برداشت نہیں ہے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو چاہیے کہ جلد از جلد ایسے قوانین لاگو کرے جس سے سوشل میڈیا پر ایسے گستاخانہ پیج نہ بنائے جا سکیں اور ہر اس گروپ یا پیج کو بلاک کر دیا جائے جس پر توہین رسالت کا تھوڑا سا بھی شک ہو _ آج ایک شوکت عزیز صدیقی سامنے آیا ہے تو کل کئی جسٹس شوکت عزیز صدیقی سامنے آ کر شان رسالت میں گستاخی کرنے والوں کو دھول چٹاتے دکھائی دیں گے۔