تحریر : محمد شاہد محمود آزادی کے لیے ہتھیاروں سے زیادہ جذبوں کی ضرورت ہو تی ہے جن کی ہمیں اشدضرورت ہے کشمیر کے معلامات پر حالیہ حکومتی ردعمل نے حالات کو یکسر بدل دیا ہوا ہے۔بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی پاکستان آمد اور دینی و سیاسی و کشمیری جماعتوں کے بھر پور احتجاج کے بعد چوہدری نثار کی دہشت گردی پر گفتگو سے راجناتھ ایسے بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے کہ سارک کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔چوہدری نثار نے کشمیریوں کی تحریک آزادی پر جو موقف پیش کیا وہ پاکستانی قوم کی آواز تھا۔کشمیریوں کی حالیہ تحریک نوجوانوں کے قیادت میں چل رہی ہے اور وہ پاکستان کا پرچم اٹھائے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔بڑی مدت کے بعد انہیں پاکستان کی طرف سے حوصلہ افزا پیغام ملا۔تحریک آزادی جموں کشمیر نے وطن عزیز پاکستان میں اہل کشمیر کا ساتھ دینے کے لئے کشمیر کارواں بھی نکالا،ڈاکٹروں کی تنظیم نے مقبوضہ کشمیرجانے کا اعلان کیا لیکن بھارت سرکار نے ویزہ نہیں دیا۔فلاح انسانیت فائونڈیشن نے چکوٹھی لائن آف کنٹرول کے قریب چار دن تک امدادی سامان کے ہمراہ دھرنا دیا۔
لیکن سامان بھجوانے کی اجازت نہیں ملی۔اقوام متحدہ نے بھی سامان بھجوانے سے انکار کر دیاتھا جس سے اسکی دوہری پالیسی عیاں ہو گئی ہے۔گذشتہ روز پاکستان کے نامور صحافی کالم نویس اسد اللہ غالب نے کشمیر کے حوالے سے ایک اہم مینٹنگ کا اہتمام کیا تھا جس میں ضیاء شاہد سے لیکر دیگر محب وطن اور سینئر صحافیوں نے شرکت کی امیر المجاہدین حافظ محمد سعید مہمان خصوصی تھے (ر)جنرل مصطفی نے بہت سے انکشافات کیے حافظ محمد سعید نے کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں خود کو کشمیر کے لیے تیار کرنا ہوگایونائٹیڈنیشن نے کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دیکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہمیشہ سے پاکستان دشمن تھے اور رہیںگئے مظفر آباد ‘ راولا کوٹ مجاہدین نے یہ علاقے باقاعدہ جہاد کرکے آزاد کروائے ہیں اور آج آزادی کی اس تحریک کو اگر کسی نے یہاں تک پہنچایا ہے تو وہ خود کشمیروں نے پہنچایا ہے آج لوگ ہم سے پو چھتے ہیں کہ کشمیر کے متعلق آپ کا موقف کیا ہے تو ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور آج ہماری شہہ رگ دشمن کے نرغے میں ہے۔
یہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے کشمیر کے متعلق ہماری پا لیسی قائد اعظم کے الفاظ ہو نے چاہیے آپ نے فرمایا تھا کہ کشمیر میں اپنی فوج داخل کرو آج پاکستانی فوج کو باقاعدہ کام کرنا ہوگاہم یہ نہیں کہتے کہ آپ فوج کو کشمیر میں بھیج دیں کیونکہ فوج اس وقت پاکستان کے اندرونی بیرونی خطرات سے نمٹ رہی ہے مگر اس کے علاوہ اور بہت سے متبادل راستے موجود ہیں اور اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ بھارت مذکرات کی ٹیبل پر آئے تو پہلے ہمیں بھارت کو 1948والے مرحلے پہ لانا ہوگااور اس کے لیے 1948 والا جذبہ بھی پیدا کرنا ہوگاآج ہر کشمیری پاکستان کا جھنڈا لیے ہوئے اس انتظار میں کھڑا ہوا ہے کہ پاکستان کس وقت انکی مدد کو پہنچے گا؟کشمیروں نے ہمیشہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ سمجھا ہے اور اس لیے پاکستان کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیںآزادی باتوں سے نہیں آتی بلکہ آزادی کے لیے جان کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں۔
Pakistan
اس پاکستان کا چپہ چپہ ہندئوں سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوا تھا مائوں ‘بہنوں’بیٹیوں کی عزتوں کو لوٹا گیا ہم ان لوگوں سے اچھائی کی امید کیسے کر لیں؟کیسے مان لیں کہ ہندئوستان میں سیکولر ازم کے نا م مسلمانوں کا قتال کروانے والااور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا مجرم مودی کیسے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تیار ہوگا؟جو ہر وقت پاکستان کے ساتھ جنگ کا خواہش مند ہے اب تو پاکستان کی آخری امید یونائٹیڈنیشن نے بھی اس مسئلے کو حل کرنے سے انکار کر دیا ہے اب آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے ؟تو وہ یہ پاکستان کو اس مسئلے پر کھل کر بات کرنی ہوگی اور بھارت کو یہ بتانا ہوگا کہ تم ہمارے گھر پر قابض ہو کر دہشت گردی کر رہے ہو آج ایک بار حالات ایک بار پھر سے تبدیل ہور ہے ہیں کشمیری شہادتوں نے مناظر کو گرما دیا ہے اگر اس وقت بھی ہم خاموش رہے تو یہ ہماری منافقت ہوگی آج ستائیس دن ہوگئے ان بھارتویوں نے کرفیو لگایا ہوا ہے اس وقت پاکستانی حکومت کا سب سے پہلا فرض جو آلو پیاز کی تجارت سے بھی ضروری ہے وہ ہے کشمیریوں کو خوراک پہنچائی جائے اور ابھی تک اس اہم مسئلے پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
پاکستان کو اپنا سفیر فورا سے واپس بلانا چاہیے تھا جب کہ ایسا نہیں ہوا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ بھارت کسی بھی صورت مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتامگر اب کشمیر کی آزادی قریب ہے کیونکہ بھارت ہماری امن کی کواہش کو ہماری کمزوری سمجھ کر ہم پر جنگ مسلط کرنے کا خواہش مند ہے تو بھارت یہ بات کان کھل کر سن لے کہ اگر اب اس نے پا کستان کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیںگے کیونکہ ہم نے اپنے گھر میں دشمن کی مداخلت بہت برداشت کر لی اب نہیں اب اینٹ کا جواب پتھر ہوگا بھارت اور اس کے اتحادی یہ بات ذہن نشین کر لیںآج دنیا میں کہیں بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو الزام سیدھا پاکستانی مسلمانوں پر لگایا جاتا ہے اور مسلمان اگر اپنے حق کے لیے احتجاج بھی کریں تو ان کودہشت گرد کہا جاتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے؟اور آج دنیا کی ساری عدالتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جو ایک کتے کے مرنے پر واویلا کرتیں ہیں خاموش ہیں کیوں؟ اس لیے کہ ہم نے کبھی اپنا حق نہیں مانگا مگر اب ہم اپنا حق اپنے حق سے لیں گے۔
انشاء اللہ آج جماعت الدعوة پر پابندیوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ وہ واحد جماعت ہے تو کشمیر کی آزادی کی بات کرتی ہے جو غلامی کے کشکول توڑنے کی بات کرتی ہے جو ملک کو خود مختار دیکھنا چاہتی ہے جو دعوت دیتی ہے امن کی محبت کی بھائی چارے کی جو کہتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسولۖکے احکامات پر چل کر دیکھوپھر دیکھو کہ اللہ تمہیںدنیا میں کس طرح غالب کرتا ہے حافظ محمد سعید اپنی بات نہیں کرتے بلکہ وہ تو اللہ اس اور اس کے رسول ۖکے احکامات اور تعلیمات سے ہٹ کر کوئی بات ہی نہیں کرتے آج اسی لیے انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے اور آئے دن ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیںسمجھ میں نہیں آتا کہ جماعت الدعوةنے امریکہ کو کونسا نقصان پہنچایا ہے جو بانکی اس پر پابندی لگانے کا حکم صادر کرتا ہے اور ہمارے حکمران اس کی بات کو مانتے ہیں مگر آج یہ بات دنیا جان لیں کہ جماعت الدعوة دین حق اسلام کی دعوت دیتی ہے اور دین کا کام کرتی ہے انسانیت کی بھلائی اور انسان کی آزادی کی بات کرتی ہے اس لیے اس جماعت کو دہشت گرد کہا جاتا ہے مگر اب لوگ باشعور ہو چکے ہیں اس لیے ان فضول باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔