تحریر : حافظ جاوید الرحمان قصوری کشمیر میں بھارتی مظالم ایک طرف لوگوں سے ان کی آزادی چھین رہے ہیں تو دوسری طرف ذہین ترین نوجوان بھی قلم چھوڑ کر بندوق اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ان مظلوم نوجوانوں میں برہان مظفر وانی قابل ترین طالب علم تھا۔ برہان نے میٹرک میں 90% نمبر حاصل کیے لیکن ہندوستانی قابض فوج نے اس سے اس کا بھائی چھین لیا 2010 میں جب برہان نے درندے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بلاوجہ اپنے بڑے بھائی خالد کو شدید تشدد اور اذیت سے دوچار ہوتے دیکھا یہ وہ دن تھا جب ایک بے باک مجاہد آزادی نے جنم لیا۔ برہان جدید گوریلہ جنگ کا ماہر اور تحریک آزادی کشمیر کا روح رواں تھا جس نے کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو شامل کیا یہی وجہ تھی کہ بھارتی فوج نے ان کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کی تھی۔
اس مجاہد آزادی کو شہید کر دیا گیا اس کی شہادت سے تحریک آزادی میں ایسی شدت آئی کہ بھارتی فوج سے مسلسل کرفیو لگا کر بھی حالات کنٹرول نہیں ہو رہے مظاہروں میں بے پناہ شدت آگئی ہے اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 56 ہو گئی ہے اور ہزارں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہسپتالوں دھکے کھا رہے ہیں مسلسل کرفیوسے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت پیدا ہو کئی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم کو کشمیر میں الیکشن جیتنے کے بعد کشمیریوں کا خیال آہی گیا مظفرآباد میں جلسے سے خطاب میں اپنے دوست مودی کے بارے میں کچھ نہ کہہ کر مقبوضہ کشمیر کی عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کا علان کیا تو کشمیری عوام میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڈ گئی۔کشمیری عوام نے آرمی چیف کے بیان کو جس میں انھوں نے کہا تھا بھارتی فوج اپنے مظالم بند کرے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی راے شماری کروائے کو بہت پسند کیا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ کشمیریوں کے حق آزادی کو تسلیم کیا جائے جبکہ حکومت پاکستان نے یورپی یونین ،اسلامی کانفرنس ،پانچ ایٹمی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں مداخلت کرکے بھارتی فوج کو پابند کیا جائے کہ وہ کشمیریوں پر ظلموں بربریت کو فوری روکے۔
Indian Army
پاکستان کے اس مطالبے پر نام نہاد کی انسانی تنظیمیں بالکل خاموش ہیں صرف امریکہ نے رسمی سا بیان دیا ہے کہ مسلہ کشمیر دونوں فریق باہمی رضا مندی سے حل کریں اگرچہ باراک اوبامہ نے اپنے پہلے صدارتی دور میںیہ علان کیا تھا کہ ہم مسلہ کشمیر اور مسلہ فلسطین حل کرائیں گے مگر وہ بھارتی دبائو میں اپنے علان سے پھر گئے۔کشمیر کا مسلہ 1947سے پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے اب بھارت اسرائیل کے بتائے ہو ئے فارمولے پر چل رہا ہے کہ کشمیریوں کو یکسر بے بس کیا جائے انکے خلاف انتہائی ریاستی طاقت استعمال کی جائے کہ وہ بالکل مجبور ہو جائیں ۔بھارت کا خیال ہے کہ اب پاکستان کی طرف سے جدوجہد کشمیر کی مدد ممکن نہیں کیوں کہ اس نے خاردار تاریں لگا دی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی موجودہ تحریک جو حالات وواقعات کی روشنی میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔
پاکستان سمیت کسی بھی بیرونی مدد کی مرہون نہیںیہ تحریک مکمل طور پر فرزندان زمین کی شروع کردہ ہے اس کا کریڈٹ کوئی دوسرانہیں لے سکتا ۔بھارت جتنی جلدی کشمیر کے حوالے سے زمینی حقائق کا ادراک کر لے اتنا اس کے لیے ہی نہیں پورے خطے کے لیے بہتر ہو گا بھارت کو اب یہ خیال ترک کرنا ہوگا کہ کشمیری عوام اب آزادی سے کم کسی چیز راضی ہوجائیں گے اور بھارتی آئین کے تحت مسلے کے کسی حل کو قبول کر لیں گے طاقت کے زور پر اب مودی کو کشمیر پر تسلط برقرار رکھنا ناممکن نظر آ رہا ہے۔
Kashmiris
دوسری طرف افسوس ناک امر یہ ہے کہ کشمیری عوام پر ظلموں ستم کے خلاف پاکستان سے جو آواز اٹھنی چاہے تھی وہ سنائی نہیں دے رہی پاکستان سے جس توانا آواز کی توقع کی جا سکتی تھی وہ تاحال نہیں اٹھی۔حکومت پاکستان مولنا فضل الرحمن کو فوری طور پر کشمیر کمیٹی سے فارغ کر کے حافظ محمد سعید کوکشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کرے کیوں کہ اس وقت حافظ سعید کشمیریوں کی آواز بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں آگے آئیں دنیا کو پیغام دیں کے کشمیری تنہا نہیں ہیں یاد رکھیے اگر ہم نے اب بھی مصلحت اور بزدلی کو اپنا شعار اپنائے رکھا تویہ سلسلہ پھر مقبوضہ کشمیر پر رکتا دیکھائی نہیں دیتا بہت آگے تک جائے گا ۔پاکستانی عوام کی طرع حکومت بھی کشمیریوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو جائے کیوں کہ اب آزادی کشمیر کی منزل زیادہ دور نہیں۔