تحریر : حافظ جاوید الرحمن قصوری ایم اے برہان وانی کی شہادت کے بعد اب تک مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو مسلسل 61 دن ہو گئے ہیں بھارتی فوج کی درندگی وحشت بربریت تھمنے کا نام نہیں لے رہی ان 61 دنوں میں 95 کشمیریوں کو شہید اور ہزارں کو شدید زخمی کر دیا گیا لیکن کشمیریوں کے عزم حوصلے اور آزادی کی تڑپ میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئی۔
ایک طرف آٹھ لاکھ دنیا کے جدید ترین اسلحے سے لیس انڈین آرمی اور دوسری جانب نہتے کشمیری نوجوان مودی سرکار کشمیر کی تحریک کو کچلنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن آزادی کی تحریک میں دن بہ دن تیزی آتی جا رہی ہے کوئی لمحہ ایسا نہیں جب کشمیر میں پاکستان زندہ باد کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ نہ گونجتا ہو۔کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستان کا پرچم دیکھ کر بھارتی حکومت پروپگنڈہ کرنے لگی کہ اس تحریک کو پاکستان کی مدد حاصل ہے۔
مودی سرکار حواس باختہ ہو چکی ہے 15اگست کو دہلی کے لال قلعہ میں جشن آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے شوشہ چھوڑا کہ مجھے پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے فون آتے ہیں۔ مودی کو کشمیر میں جاری تحریک کا ذکرکرنے کا تو خیال نہیں آیا البتہ اس نے بلوچستان کے متعلق شوشہ چھوڑ کر پوری دنیاکے سامنے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا اعتراف کر لیا۔
Balochistan
بھارتی حکومت اس وقت اتنی بے چین کیوں ہے ؟ ایک طرف کشمیر میں جاری تحریک آزادی میں شدت اور دوسری طرف 44ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی پاک چین اقتصادی راہداری سے بھارتی حکمرانوں کے ہاتھ پائوں کانپنے لگ پڑے بھارتی سرکار نے امریکہ سے دفاعی تعاون کا معاہدہ کر لیا یہ معاہدہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر فوجی سازوسامان کی فراہمی اور مرمت کا رستہ کھول دے گا۔
امریکی وزیر دفاع اور بھارتی وزیر دفاع کی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کیا گیا انڈیا سب سے ذیادہ فوجی مشقیں بھی امریکہ کے ساتھ کر رہا ہے چند ماہ قبل امریکہ نے انڈیا کو اہم فوجی پارٹنر کا درجہ دیا تھا جو عام طور پر انتہائی قریبی ملکوں کو دیا جاتا ہے اس حثیت سے انڈیا امریکہ سے کئی اہم فوجی ٹیکنالوجی کا سامان حاصل کر سکتا ہے بھارت اور امریکہ کے اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی جریدے نے اپنے ایک مضمون میں چین اور پاکستان کو انڈیا امریکہ معاہدے سے خبردار کیا ہے۔
امریکی میڈیا میں اس بات کی نشان دہی کی گئی کہ انڈیا کے ساتھ کیا جانے والہ معاہدہ چین اور پاکستان کو قابو میں رکھنے اور بلوچستان میں اپنا اثررسوخ بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے ۔اس بات میں شک نہیں کہ بھارت کی طرف سے پہلے ہی آزاد کشمیر اور بلوچستان میں رابطے قائم کیے گئے ہیں تاہم اب بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے وزارت خارجہ کو دنیا کے مختلف علاقوں میں آزاد کشمیر اور بلوچستان کے باشندوں سے رابطے قائم کرنے سے بھارت کے مزموم عزائم بے نقاب ہو رہے ہیں۔
Narendra Modi
اب پاکستانی حکومت کو اپنی ذاتی صوابدید اور ذاتی مفادات سے بالاترہو کر کام کرنا ہو گا کیوں کہ اب یہ بات روزروشن کی طرع عیاں ہو چکی ہے کہ امریکہ انڈیا اسرائیل مل کر پاکستان کو عدم تحفظ کا شکار بنا رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت کو چین کر حکومت کے ساتھ مل کر ان سب کی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہے اقتصادی راہداری کی حفاظت پاکستان کو ہر قیمت پر کرنی چاہے خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں پاکستان، چین، روس کو آنے والے وقت میں اپنا الگ بلاک بنانا پڑے گا کیوں کہ خطے میں پاکستان کی اہمیت بہت ذیادہ ہو گی۔
پاکستانی حکومت کو کشمیر میں جاری بھارتی مظالم دنیاکو دیکھانے چاہے دنیا کو بتانا چاہے کہ کس طرع دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوئے دار ہونے والا بھارت کشمیریوں کو اصتواب رائے کا حق کیوں نہیں دے رہا ؟کیوں کہ کشمیری اس وقت پاکستان سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں ہمیں ان کا ہر فورم پر بڑھ چڑھ کر ساتھ دینا چاہے اور بلوچستان میں جو کچھ محرومیاں ہیں ان کا فوری آزالہ کیا جائے انشاء اللہ بہت جلد پاکستان خطے میں اپنا منفرد مقام حاصل کر لے گا۔