اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) آزادی مارچ کے شرکا نے اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور انھین قیادت کے اگلے حکم کا انتظار ہے۔ صورتحال کے پیش نظر ریڈ زون جانے والے راستے سیل کرتے ہوئے سکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے آزادی مارچ کا تیسرا روز ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی وزیراعظم عمران خان کو دی گئی استعفے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے قریب ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے زیر صدارت جے یو آئی کی قیادت نے سر جوڑ لئے ہیں۔ ڈی چوک جانا ہے یا نہیں؟ اجلاس میں آئندہ کی حکمت عملی پر تفصیلی مشاورت کی جا رہی ہے۔ آزادی مارچ کے شرکا کو قیادت کے اگلے حکم کا انتظار ہے۔
ادھر وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کرتے ہوئے ریڈ زون جانے والے راستوں کو مکمل بند کر دیا گیا ہے۔ زیرو پوائنٹ سے ریڈ زون تک 8 ہزار پولیس اہلکار تعینات کرتے ہوئے نفری کو آنسو گیس، شیلڈز اور دیگر سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ریڈ زون کو سرینا چوک، نادرا چوک، ایکسپریس چوک، میریٹ اور بری امام کی جانب سے آنے والے راستوں پر مٹی سے بھرے کنٹینرز لگا کر مکمل سیل کر دیا گیا ہے۔
حساس عمارتوں پر پاک فوج اور رینجرز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ ریڈ زون کے بیرونی جانب پولیس نے حصار بنا لیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشن وقار الدین سید کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ پولیس حکام نے واضح کر دیا ہے کہ مظاہرین کو کسی صورت ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔
یاد رہے کہ جمعہ کو اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کیلئے صرف دو دن کا وقت دیا تھا، جسے ختم ہونے میں اب چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔
اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا اجتماع ہے۔ عوام جس جذبے کیساتھ آئے، ان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ دنیا اس اجتماع کو سنجیدگی سے لے، ہم انصاف چاہتے ہیں۔ پاکستان پر صرف عوام کا حق ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں عدل وانصاف کا نظام چاہتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن دھاندلی کے ذریعے ہوئے۔ حکومت کو جانا ہوگا، ہم نے انھیں بہت مہلت دے دی۔ انھیں غریبوں، مزدوروں اور پاکستان کے عوام کیساتھ مزید کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ دعویٰ کیا گیا کہ 50 لاکھ گھر بنا کردیں گے لیکن 50 لاکھ سے زیادہ گھر گرا چکے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے 25 لاکھ کو بیروزگار کر دیا گیا۔ کرپشن کا خاتمہ تو دور کی بات، ایک سال میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔
انہوں نے اپنے جذباتی خطاب میں کہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ عوام موجودہ حکومت سے آزادی چاہتے ہیں۔ آج پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہے۔ ان کی نااہلی سے ملکی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ جس ریاست کی معیشت تباہ ہو جائے، وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ معیشت تباہ ہوئی تو سویت یونین اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔
مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکمرانوں نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے، اور وہاں کی عوام کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، ہم کشمیریوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ انھیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ کشمیریوں کے حقوق کیلئے ہر حد تک جائیں گے۔
انہوں نے حکومت کے دعوؤں اور وعدوں پر تنقید کے نشتر چلائے اور کہا کہ کہتے تھے باہر سے لوگ نوکری کے لیے آئیں گے، تاہم آئی ایم ایف کے 2 بندے ضرور پاکستان میں آئے۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں کہتے ہیں بھارت سے کشیدگی ہے تو دوسری طرف ان کیساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ آج اسرائیل کوتسلیم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں حالانکہ اسرائیل وجود میں آیا تو اس نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پاکستان کے خاتمے پر رکھی۔
انہوں نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے لیکن ہمارے مطالبے نہ مانے گئے تو پھر کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے۔ عوام کا یہ سمندر قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کو گرفتار کرلے۔ ہم مزید صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ دو دن کی مہلت دیتے ہیں، وزیراعظم مستعفی ہو جائیں۔ دو دن کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل دینگے۔