آج کل ملکی سیاست کا درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے۔ کہیں سے آزادی مارچ کی گونج اور کہیں سے انقلاب کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ ایک طرف تو ہماری فوج ملک و قوم کے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تو دوسری طرف ہماری سیاسی جماعتیں تمام اقدار کو بھلا کر اقتدار کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔جو حکومت میں ہیں ان کو حکومت بچانے کی فکر لاحق ہے اور جو اقتدار میں نہیں ہیں وہ ہر حال میں اقتدار پر قابض ہو نا چاہتے ہیں، چاہے اس کیلئے ان کو کسی حد تک بھی جانا پڑے ۔پہلے جیسے جیسے 14اگست قریب آتا تھا ویسے ویسے عوام میں جو ش وخروش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا، ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی خوشی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا عوام کو اس بات کی خوشی ہو تی کہ ہمارا یوم آزادی قریب آرہا ہے وہ دن قریب آرہا جس دن ہمیں آزادی نصیب ہوئی لیکن اس کے برعکس اس دفعہ جیسے جیسے 14 اگست قریب آرہا ہے عوام میں بے چینی اور بے یقینی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ کئی سوال عوام کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں ۔کہ کیا ملک میں ایک بار پھر آرمی (کو )ہونے جارہا ہے؟یاپھر کیا مڈ ٹرم الیکشن ہوں گے؟یا پھر خدا نخواستہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ؟ایک طرف طاہرالقادری صاحب اور عمران خان کے اشتعال انگیز بیانات اور دوسری طرف حکومتی وزرا کی جارحانہ بیان بازی صورت حال کو مزید سنگین بنا رہی ہے ۔عمران خان صاحب نے چار حلقوں کو جواز بنا کر 14اگست کو لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے ،خان صاحب وفاق پر چڑھائی کرنے کی بھر پور تیا ری کر چکے ہیں ۔خان صاحب نے اپنی گذشتہ روز کی پریس کانفرنس میں واضح کر دیا ہے کہ اب کسی بھی صورت حکومت سے کوئی مذکرات نہیں ہوں گے۔
Nawaz Sharif
وہ ایک طرف تو شریف بردران کو بادشاہ اور ڈکٹیٹر کہتے ہیں اور دوسری طرف خود کہتے ہیں مذکرات کسی صورت نہیں ہو ں گے ،کیا یہ آمرانہ سوچ نہیں ؟کیونکہ جمہوریت میں تو مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہو ا کرتے۔ان کی گذشتہ روز کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کا تہیہ کر چکے ہیں ۔14 اگست کے دن جب پوری قوم یک جان اور یک زبان ہو کر آزادی کی خوشیاں مناتی ہے اسی دن اس قوم میں تفریق ڈالنے کی حتی الاامکان کوشش کی جا رہی ہے ۔خان صاحب کو مشورے دینے والے شیخ رشید صاحب اور علامہ صاحب کو مشورے دینے والے چوہدری برادران ملکی تاریخ کی مضبوط گورنمنٹ کا حصہ رہے ہیں ،لیکن تب انہوں نے انتخابی اصلاحات کی بات کیوں نہ کی اور نہ ہی انہوں نے کبھی مشرف کے دور میں ہونے والے دھاندلی زدہ الیکشن اور دھاندلی سے بھر پور ریفرنڈم پر آواز نہیں اٹھائی بلکہ یہ لوگ اسی دھاندلی کے سبب ہی حکومت کے مزے لیتے رہے۔
اب یہ لوگ ایک بار پھر کسی کے کندھوں کا سہارا لے کر چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔خان صاحب نے الیکشن کے نتائج کو قبول کیا اس پارلیمنٹ سے حلف بھی لیا لیکن ایک سال بعد پھر دھاندلی دھاندلی کا واویلا کرتے سڑکوں پہ نکل آئے ، ویسے تو ان کی ڈیمانڈ چار حلقے تھے لیکن میں پہلے بھی اپنے کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں اور اب بھی یہی بات کہوں گا کہ بات صرف چار حلقوں کی نہیں ہے بلکہ اس کے در پردہ ایجنڈہ کوئی اور دکھائی دیتا ہے ۔جب سے ملک پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے لے کر اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ہر الیکشن میں دھاندلی کا شور مچتا رہا ہے لیکن پہلے کبھی بھی ایسی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی صرف چار حلقوں کو لے کر اتنا ہنگامہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کسی بات کی تو پردہ داری ہے۔کہا جاتا ہے کہ حکومت کو چار حلقے کھول دینے چاہیے تھے مگر خان صاحب نہ تو حکومت کو مانتے ہیں ،نہ وہ عدلیہ کو مانتے ہیں ،نہ وہ الیکشن کمشن کو تسلیم کرتے ہیں ،حالانکہ فخرو جی ابرہیم کی تعیناتی پر سب سے زیادہ مطمن خان صاحب تھے ،اب اس صورت میں چار حلقے کھول بھی دئیے جاتے تو اس سے کیا فرق پڑنا تھا۔
PTI Freedom March
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت چار حلقے کھول دیتی تو خان صاحب چپ ہو کر بیٹھ جاتے، وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔بلکہ چار حلقے کھول دینے ایک نیا پنڈور باکس کھل جاے گا اور ہر وہ شخص جو الیکشن میں ہار گیا ہے وہ یہی مطالبہ شروع کر دے گا کہ اس کا حلقہ بھی کھولا جائے اور پھر حکومت بقیا چار سالوں میں یہی کام کرے گی۔آپ کو یاد ہو گا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایک جماعت نے یوم آزادی 14 اگست کی بجائے 15اگست کو منا کر قوم کو تقسیم کرنے کی ناکام کوشش کی تھی،اب ایک بار پھر یوم آزادی والے دن احتجاج کی کال دے کر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
احتجاج اور لانگ مارچ ہر پارٹی کا حق ہے لیکن ہر کام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتا ہے ۔اور انتخابی دھاندلی کو جواز بنا احتجاج کا وقت گذر چکا خان صاحب نتائج تسلیم کر چکے ،۔اس وقت پوری دنیا میں امت مسلمہ انتشار کا شکار ہے ،فلسطین میں اسرائیل کی بر بریت اپنے عروج پر چکی ہے ،ملک میں فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے ،10 لاکھ سے زائد آئی ڈی پیزاپنے گھر بار چھوڑ کر بنوں اور دوسرے علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں ،اور ہمارے ملک میں انتشار کی چنگاری کو ہوا دی جا رہی ہے۔راولپنڈی اور ہزارہ ٹائون جیسے واقعات کے ذریعے بھی ملک میں خانہ جنگی کرانے کی شازشیں کی گئی،لیکن قوم نے یہ سازشیں مسترد کر دیں مذہب کے نام پر قوم کو لڑانے والی قوتیں اب ملک میں سیاست کے نام پر انتشار پھیلانے کی کوششیں کر رہی ہیں ،ہمارے سیا ستد انوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے ۔ملک پہلے ہی کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔
ہماری پاک فوج اس ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے ،تو دوسری طرف حکومت گرانے کی شازش کی جارہی ہے ،اور کہا جارہا کہ ہمارے اس اقدام سے جمہوریت پر کوئی قد غن نہیں آئے گا ،لیکن فرشتے جب آتے ہیں تو کسی سے پوچھ کر نہیں آتے ایسا نہ کہ پوری بساط ہی لپیٹ دی جائے ۔اگر خدانخواستہ 14اگست والے دن حالات حکومت یا پھر لانگ مارچ کے منتظمین کے ہاتھوں سے باہر ہو گئے تو پھر کیا ہوگا ؟اور اگر کوئی بڑا سانحہ رونما ہو گیا تو اس کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر آئے گی؟بظاہر تو لگتا ہے کہ 14 اگست خیریت سے گزر جائے گا ،لیکن اگر اس کے برعکس کوئی غیر آئینی اقدام اٹھالیا گیا تو ہمارے سیاستدان تو پہلی فرصت میں ملک سے باہر چلے جائیں گے ۔لیکن اس ملک وقوم کا کیا بنے گا؟ ،خان صاحب ایک بڑا فیصلہ لے چکے ہیں غالبا ان سے یہی کہا گیا ہوگا کے اگر طاہر القادری صاحب آپ سے پہلے نکل آئے تو ساری کامیابی ان کے کھاتے میں چلی جائے گی۔
خان صاحب کو ان کے سیاسی دوستوں نے مشورہ دے تو دیا ہے کے وہ جہارحانہ کھیل کھیلیں اب خان صاحب لمبی ہٹ لگانے کے چکر میں آدھی پچ پر آن کھڑے ہوئے ہیں ۔اب اگر وہ کریز کی جانب واپس جاتے ہیں تو رن آئوٹ ہونے کا خدشہ ہے۔اب ان کو شارٹ تو کھیلنی ہی پڑے گی۔
دیکھنا یہ ہے کے 14 اگست والے دن حکومت ان کو گیند کہاں کراتی ہے اور اس گیند پر خان صاحب لمبی شارٹ لگا پاتے ہیںیا نہیں ؟ دوسری صورت میں خان صاحب سٹنمپ بھی ہوسکتے ہیں ۔اب ان کو کریز سے نکل کر کھیلنے کا مشورہ دینے والے اس وقت خان صاحب سے کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ خان صاحب آپ لمبی ہٹ کے چکر میں بہت آگے نکل آئے۔