جیسے جیسے 27 اکتوبر کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے ،ملکی سیاسی گرمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہیں، ٹی وی ٹاک شوز میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی سرکردہ رہنمائوں میں شدید لفاظی جنگ نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ اسلام آبادانتظامیہ کی چھٹیاں منسوخ ہوگئی ہیں،پنجاب کے دیگر اضلاع سے بھی پولیس اسلام آباد پہنچنے لگی ہے،خندقیںکھودی جارہی ہے ، کنٹینرز اور خاردار تاریں لگائے جارہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے چند ماہ قبل موجودہ حکومت کے پالسیوں کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہوا تھا ،ستمبر کے مہینے میں مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں پریس کانفرس کے دوران 27اکتوبر2019کا تاریخ دیدیا آزادی مارچ و دھرنے کے لیے ۔ 27اکتوبر کوآزادی مارچ و دھرنے کے اعلان کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے تمام رہنما و کارکنان مارچ و دھرنے کو کامیاب کرنے کے لیے متحرک ہوگئے ۔ چندہ مہم کے ساتھ ساتھ دیگر پارٹیوں کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتوں اور عوامی رابطہ مہم کے سلسلے بھی شروع کر دئیے ، گر چہ مولانا فضل الرحمن پہلے ہی سے اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں کے سربراہان سے رابطے میں تھے ، مگر دھرنے کے تاریخ کے اعلان کے بعدجمعیت علمائے اسلام کے تمام رہنمائوں نے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ ،
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن شروع دن سے ہی موجودہ حکومت کے خلاف تھے اور اس کے لیے انہوں نے ایک سال میں کئی رکارڈ مرتبہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) سمیت کئی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقتیں کی اور آل پارٹی کانفرسز بھی منعقد کئے ، ابتداء میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ہی تحریک انصاف کے حکومت کو ختم کرنے کی حامی نہیں تھی ، مولانا فضل الرحمن نے اسمبلیوں سے استعفے کی بات بھی کی ، عمران خان کے صحابہ کرام کے گستاخی والی باتیں بھی کی مگر دونوں جماعتیں جمہوریت کے نام پرعمران خان کے حکومت کو وقت دینے کی حامی تھی۔ مولانا مسلسل کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو تحریک انصاف حکومت کے خلاف احتجاج میں اپنے ساتھ ملایئے اور بل آخر مولانا فضل الرحمن ایک حد تک کامیاب ہو ہی گئے۔مسلم لیگ(ن)، عوامی نیشنل پارٹی، پختون خواء ملی عوامی پارٹی ،جمعیت علماء پاکستان(نورانی)گروپ اور تحریک اہلحدیث نے دھرنے میں مکمل شرکت کا اعلان کردیااور پیپلز پارٹی نے اخلاقی حمایت کا اعلان کیا۔
احتجاج کے اعلان کے بعد حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین مذکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، دھمکیوں کا سلسلہ بھی، لیکن آزادی مارچ و دھرنے کی تاریخ کے اعلان کے بعد حکومت نے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام تھا جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کو منانا کہ وہ اس احتجاج کو منسوخ کرے، مگر کمیٹی میں موجود ارکان کے لب و لہجے اور تند وتیز بیانات نے مذکرات کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردیئے ۔ رہی سہی کثر وزیراعظم عمران خان کے گزشتہ جمعرات کو دیئے گئے بیان نے پوری کردی جس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے ۔ مذکرات کی ناکامی کے بعد حکومت نے دیگر اپشنز پر سوچ وچار شروع کردیا ، سب سے پہلے حکومت نے جید علمائے کرام کا ایک اہم کانفرنس منعقد کیا جس میں ملک بھر سے علمائے کرام کو مدعو کیا ،جس میں مفتی تقی عثمانی ، مفتی رفیع عثمانی ، مفتی زر ولی خان سمیت کئے بڑے علمائے کرام (خاص کر دیوبند مسلک کے علمائے کرام)نے شرکت سے معذرت کردی۔ علمائے کرام کی اس بیٹھک کو آزادی مارچ روکنے کے لیے بلایا گیا تھا مگر جید علماء کی عدم موجودگی میں بیٹھک کا رخ کسی اور جانب چل پڑا۔
تمام تر کوششوں کے بعد بھی جب تحریک انصاف حکو مت مولانا فضل الرحمن اور ان ی جماعت کو آزادی مارچ دھرنے کے فیصلے سے نہیں روک سکی تو حکومت دھمکیوں پر اتر آئی اور اسلام آباد انتظامیہ کو اسلام آباد سیل کرنے کا حکم صادر کردیا ۔ اسلام آباد انتظامیہ نے مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے اسلام آباد کے تمام داخلی راستوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ، ابتداء میں خندقیں کھودی جائی گی ساتھ ہی ساتھ کنٹینر اور خاردار تاریں لگا کر شہر کو بند کیا جانے لگا ۔ اس کے بعد حکومت نے دیگر مسالک کے لوگوں کے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ایک پلٹ فارم پر اکٹا کرنا شروع کردیا جس کی پہلی مثال گزشتہ روز لاہور میں ہونے والی ایک پریس کانفرس کے جس میں مولوی اشرف جلالی اور دیگر افراد مولانا فضل الرحمن پر ملک دشمنی کا الزام لگا رہے ہیں۔
عمران خان کی حکومت آزادی مارچ کوروکنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہے ۔ ماہرین کے مطابق مولانا فضل الرحمن جہاں عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہہ کر احتجاج کرہے ہیں وہی مولانا فضل الرحمن نے دیگر دسیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ عمران خان حکومت کی غلط معاشی پالیسوں کے بنیاد پر شامل کیا ہوا ہے ، چونکہ مسلم لیگ(ن) ہو یا عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلز پارٹی ہو یا پختون خواء ملی عوامی پارٹی سب پر ماضی میں مولانا فضل الرحمن یا وان کی پارٹی کے دیگر زمہ داران غیروں کے ایجنٹ کا الزان لگا چکے ہیں۔ مگر ملک میں بڑھتی مہنگائی کے اور معاشی بد حالی کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہیں۔
تحریک انصاف والوں نے جب اسلام آباد میں 126دن دھرنا دیا ہواتھا اس وقت احتجاج آئینی حق تھا اب جب مولانا فضل الرحمن احتجاج کرنے اسلام آباد آرہے ہیں ، تو انہیں روکنے کے لیے غیر آئینی طریقوں کا استعمال شروع کردیا گیا ہے ۔ تحریک انصاف حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپوزیشن کو احتجاج کرنے دے ، جس طرح 126دن وہ اسلام آباد میں بیٹھے رہے مولانا اور انکے کارکنان کو بھی بیٹھنے دیں ۔احتجاج جمعیت علمائے اسلام کا آئینی و قانونی حق ہے اس کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن کو بدنام کرنے اور ان کو روکنے کے لیے حکومت مخالف فرقے کے لوگوں کو استعمال کرنے کی کوشش میں ہے اس سے نقصان حکومت کا ہی ہوگا ، تحریک انصاف میں اور تحریک انصاف کی حمایت میں بڑی تعداد دیوبند مسلک کے لوگوں کی ہے ، اس اوچھے ہتھکنڈے سے یہ لوگ مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں جاسکتے ہیں جس کے بعد تحریک انصاف کے حکومت کو گھر جانا لازمی ہوجائے گا۔ اس لیئے عمران خان کو بڑے احتیاط و سوچ وچار کے ساتھ فیصلے کرنے ہونگے۔
بڑھتی مہنگائی کے خلاف جس طریقے سے گزشتہ روز عمران خان صاحب نے ایکشن لیا گر دو تین میں قبل لیتا تو مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس احتجاج کا اپشن نہیں ہوتا، خیر دیر آئے درست آئے مگر اس پر یوٹرن نہیں ہونا چایئے۔جمعیت علمائے اسلام اور دیگر اپوزشن جماعتوں کے دھرنے کوروکنے کے لیے اب ایک اد یوٹرن لینے کی بھی ضرورت ہے ، جس میں سیاسی انتقام سے پیچھے ہٹنا اور مولانا فضل الرحمن کے چند مطالبات تسلیم کرنا ، کیونکہ ملک کی معاشی حالات مزید ابتر ہونے کا خطرہ ہے ۔ موجودہ محاذ آرائی سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے ، اس وقت دونوں اطراف سے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہوراہا ہے یہ سراسر نقصان دہ ہے ، اگر یہیں کیفیت رہی تو خدا نخواستہ بات خون خرابے تک پہنچ سکتی ہے ، جو کسی کے مفاد میں نہیں ۔ کچھ تحریک انصاف کو جھکنا پڑے گا تو کچھ اپوزیشن کو خاص کر جمعیت علمائے اسلام کو ۔ امید ہے ملک کی وسیع طر مفاد میں دونوں اطراف سے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ توہی میرے ملک کو صحیح نیک و صالح حکمران عطا کر(آمین)