تحریر : آصف خورشید رانا چندر گپت موریہ کے نام سے ہر تاریخ دان واقف ہے یہ وہ حکمران ہے جس نے بڑی کامیابی سے بھارت پر حکومت کی لیکن اس کی طویل عرصہ تک حکومت کی وجہ بہادری نہیں بلکہ ایک شاطر وزیر جسے تاریخ چانکیہ کے نام سے یاد کرتی ہے کی وجہ سے قائم رہی ۔چانکیہ اپنے حکمران کو ریاستوں کو زیر کرنے کے گر بتایا کرتا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے چندرگپت موریہ نے کامیابیاں حاصل کیں ۔ یہ گر دراصل عیاری چالاکی اور مکر فریبیوں پر مشتمل ہوتے تھے ۔ چانکیہ کی مشہور زمانہ کتاب ارتھ شاستر بھارت کے اکثر اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے خاص طور پر پالیسی ساز اداروں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں وہ تمام عیاریاں اور مکروفریب شامل ہیں جن کی بنیاد پر دشمن کی طاقت کو کمزور کیا جا سکتا ہے ۔ جھوٹ ، منافقت ، دھوکہ دہی بطور برائیاں نہیں بلکہ فن کے طور پر اس کتاب میں درج ہے ۔ اس کتاب میں درج ہے کسی ریاست کو طاقت سے غلام کرنے کی بجائے وہاں سازشی طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے مثلاً وہاں کے لوگوں کو خریدنا ، دوستی کرنا لیکن گلے لگتے ہی پیچھے سے خنجر مارنا ، بغاوت کے لیے لوگوں کو انعامات سے نوازنا، انہیں گروہوں میں تقسیم کرنا اور پھر آپس میں لڑاکر کمزور کرنا وغیر شامل ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے استعمال میں بری طرح ناکامی کے بعد یہ سب طریقے مقبوضہ کشمیر میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر میںایک نئی لہر پیدا ہوئی ،بھارت نے اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا لیکن کشمیریوں کی نئی نسل کے سامنے اس کی طاقت مکمل طور پر ناکا م ہوئی جس کے باعث بھارت نے اس کے متبادل طریقوں پر سوچنا شروع کر دیا ۔اس سلسلہ میں بھارتی منصوبہ سازوں نے پانچ نکاتی حکمت عملی تیار کرلی جس میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے، مساجد میں بھارتی ریاست کے وفادار امام اور خطیب مقررکرنے ، بھارت مخالف میڈیا کو کنٹرول کرکے من پسند میڈیا گروپس کو آگے لانے، جہادی تنظیموں بالخصوص لشکر طیبہ ، حزب المجاہدین کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے اور حریت رہنمائوں میں سے بھارت نواز رہنمائوں کو تلاش کر کے انہیں سیاسی محاذ پر لانے کے نکات شامل ہیں ۔ فوجی طاقت کے بے دریغ اور اندھا دھند استعمال ، کرفیو کے نفاذ اور نوجوانوں کی بڑے پیمانوں پر گرفتاریوں سمیت دیگر اقدامات کے باوجود کشمیریوں کی تحریک کو کمزور کیا جا سکا نہ ہی بڑی حد تک قابو پایا جا سکا ہے جس پر بھارت کی اعلی ٰ انتظامیہ سر جوڑ کر اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے پالیسی تیار کررہی ہے ۔ حالیہ لہر نے دنیا میں بھارت کے اس پراپیگنڈے کو ناکام ثابت کر دیا ہے کہ تحریک آزادی کے پیچھے پاکستان یا کسی پاکستانی تنظیم کا ہاتھ ہے اور بھارت کے میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا یہ تسلیم کر رہا ہے کہ یہ تحریک خالصتاًکشمیریوں کی تحریک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اندرسے بھی کشمیر کو آزاد کرنے کی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں حتیٰ کہ بھارت کی فوج میں بھی اعلیٰ سطح پر یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ اس مسئلہ کا سیاسی حل نکالا جانا بہت ضروری ہے ۔کشمیر میں موجود کٹھ پتلی حکومت اور اپوزیشن کے بہت سے اراکین بھی بھارت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ بھارت اس پر پاکستان سے مل بیٹھ کر کوئی سیاسی حل تلاش کرے ۔بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول پر اس سلسلہ میں دبائو بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ بھارت کی نظر میں اجیت دوول اس مسئلہ کو دبانے کے لیے کوئی اہم اقدامات کر سکتا ہے۔اجیت دوول نے اس پر مختلف سیاسی ، سفارتی اور سابق ملٹری شخصیات پر ایک ٹیم تیار کی جنہوں نے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ایک اہم رپورٹ تیار کی ہے ۔اجیت دوول کی اس رپورٹ میں ایسے نکات اٹھائے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے بھارت علیحدگی پسندوں کی تحریک کو روک سکتا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مساجد ، مدرسہ ، میڈیا کو کنٹرول کا جائے ، سیاسی ماحول کو تبدیل کیا جائے اور حریت کانفرنس میں ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جو اپنے موقف میں سخت رویہ نہ رکھتے ہوں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر میں وہابی ذہن رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد اہم کردار ادا کر رہی ہے چنانچہ شیعہ ، بریلوی افراد کو ان سے دور رکھا جائے اور دیگر مسالک کے افراد کو ہر صورت وہابی ازم سے بچایا جائے ۔ اسی طرح بکروال، شیعہ اور بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں ترقیاتی کام تیز کیے جائیں تاکہ اس طرح ان کے لوگوں کو تحریک آزادی میں شمولیت سے روکا جا سکے ،مساجد کے امام اور خطباء کو بات چیت کر کے انہیں قائل کیا جائے کہ وہ اس تحریک کا ساتھ نہ دیں اور بات نہ ماننے کی صورت میں ان کی جگہ معتدل ذہن رکھنے والے امام اور خطیب مقرر کیے جائیں ۔جہادی تنظیموں بالخصوص لشکر طیبہ اورحزب المجاہدین میں نوجوانوں کی شمولیت روکنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں ان کے خلاف نفرت پھیلائی جائے اس سلسلہ میں وادی سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق ان تنظیموں کی جانب سے جعلی پوسٹرز بنا کر لگائے جانے کا انکشاف ہو ا ہے جن میں مختلف دینی معاملات میں عوام کو وارننگ دی جا رہی ہے ۔ اسی طرح گزشتہ دنوں کشمیری تنظیم لشکر طیبہ کی جانب سے میڈیا کو ایک ای میل کی گئی ہے جس میں تنظیم کے ترجمان عبداللہ غزنوی نے کہا ہے کہ اجیت ددول کی ٹیم جاری تحریک آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لیے جعلی پوسٹرز پھیلا رہی ہے ۔لشکر طیبہ کشمیری عوام کے دلوں میں رہتے ہیں اور انہیں کوئی بھی اعلان کرنے کے لیے کسی قسم کے پوسٹرز لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام اور مجاہدین کے درمیان محبت کو ختم کرنے کے لیے یہ ایسے پوسٹرز لگائے جارہے ہیں لیکن ان کے یہ ہتھکنڈے ناکا م ہوں گے اور ہم اس خطرناک جنگ اور دشمن کے خلاف لڑتے رہیں گے ۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ نوجوانوں کی بڑے پیمانوں پر گرفتاریوں کے بعد بھی کشمیری نوجوان سنگ بازی میںشامل ہو رہے ہیں اس کے لیے کشمیر میں بڑے پیمانے پر سپورٹس ٹورنا منٹس کروانے کا فیصلہ ہوا ہے جس میں نوجوانوں کو مختلف پرکشش انعامات دیئے جانے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ ایسے ٹورنامنٹس فوج کی نگرانی میں منعقد کیے جائیں گے جبکہ علاقے کی سیاسی شخصیا ت کے ذریعے نوجوانوں کو ان میں شمولیت کی ترغیب بھی دی جارہی ہے ۔وادی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مختلف مقامات پر کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی ہو رہا ہے تاہم نوجوانوں کی اکثریت ابھی ان میں حصہ نہیں لے رہی ۔اجیت دوول کو پیش کی گئی اس رپورٹ پر عملدرآمد کا آغاز ہو چکا ہے تاہم دیگر اقدامات کی طرح ان میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کشمیر میں آزادی کی یہ لہر تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے ۔نوجوانوں کی اکثریت اس وقت سڑکوں پر کشمیر کی آزادی کے لیے نکل چکی ہے ان کے ساتھ بچے بھی ہیں ان کے گھروں میں خواتین اپنے بیٹوں کو تیار کرکے بھیج رہی ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے وہ خود بھی سڑکوں پر ساتھ نکلتی ہیں ۔گھروں میں موجود بزرگ بھی پیچھے نہیں ہیں وہ اپنے بچوں کو دعائوں کے سائے میں گھروں سے روانہ کرتے ہیں ۔حتی ٰ کہ بچے بھی اس آزادی کے لیے کسی سے پیچھے نہیں ہیں ان حالات میں بھارت کے چانکیائی اصول دھرے کے دھرے رہ جائیں گے سازشی ہتھکنڈے ناکام ہو جائیں گے کیونکہ جبر و استبدا د،طاقت اور ظلم کے خلاف جب جذبے جاگ جائیں تو انہیں شکست دینا ناممکن ہو جاتا ہے تاریخ کے واقعات اس سے بھرے پڑے ہیں۔