تحریر : انعم احسن ابلاغیات کی طالبہ ہونے کی وجہ ہمیں اکثر کلاسوں میں آزادی اظہارِ رائے کا درس سننے کو ملتا ہے، یعنی جو جی میں آئے کہ دیجئے اور اِس اظہارِ رائے کا حق ہر فرد کو حاصل ہے۔ اِس حوالے سے مجھے جن مفکرین، دانشوروں، اہل علم کی مثالوں، قوانین اور نظریات سے واسطہ پڑا، ان سب کا تعلق امریکہ اور یورپ سے ہے۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ مسلمانوں نے ایسا کوئی کارنامہ کیوں سر انجام نہیں دیا۔
اسلام نے تو آج سے چودہ سو سال پہلے بنیادی انسانی حقوق کا تصور پیش کیا تھا مگر آزادی اظہارِ رائے پر ہمیں مسلم اسکالرز کی رائے کیوں نہیں بتائی جاتی؟ کئی بار یہ سوال کلاس میں اساتذہ کرام سے بھی پوچھ بیٹھی۔ جواب میں مجھے ہر بار بتایا گیا کہ ”بیٹا! آزادی اظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور امریکہ و برطانیہ میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے”۔ یہی وہ وقت تھا جب سے مغربی تہذیب اور ان کے خیالات میرے لئے آئیڈیل بن گئے تھے، مگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال اور بے باکی کے بعد مجھے مغرب کا جو چہرہ دیکھنے کا موقع ملا، اْس کے بعد میرا مغربی تہذیب کو آئیڈیل سمجھنے کا بت کرچی کرچی بکھرتا چلا گیا۔ میرے خیالات منتشر ہونا شروع ہوگئے۔
ابلاغیات کی طالبہ ہونے کے ناطے میں نے ان ٹکروں کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کرچیوں نے میرے ہاتھ اور خیالات کو زخمی کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مایوسی اور نا امیدی مجھے گھیرتی رہی، ابھی گزشتہ دنوں ہی کی بات ہے، سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ آدم صالح کو امریکن ائیرلائن ڈیلٹا سے صرف اِس لیے باہر نکال دیا گیا کہ انہوں نے اپنی ماں سے عربی میں گفتگو کی تھی۔ بعد ازاں آدم صالح کی ائیرپورٹ پر جامع تلاشی لی گئی اور مکمل انٹرویو کے بعد اْسے اگلی فلائٹ کے ذریعے منزل کی جانب بھیجا گیا۔ آدم صالح نے اس سارے واقعہ پر ایک ویڈیو بنا کر فیس بک اور یوٹیوب پر اپ لوڈ کی، جس میں امریکی معاشرے کی بے حسی اور اس کے حقیقی چہرے پر دکھ اور حیرانی کا اظہار کیا۔
یوٹیوب پر مقبول اسٹار آدم صالح نے اپنی اس ویڈیو میں موقف اختیار کیا کہ یہ 2016ء ہے اور امریکی معاشرہ تبدیلی کا دعویدار ہے، اس معاشرے میں اس طرح کا رویہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِس دورِ جدید میں انسانی حقوق کے دعویدار معاشرے کی جانب سے میرے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک زمانہ قدیم میں بھی نہیں ملتا۔ آدم کی ویڈیو اور ٹوئٹس کے بعد ڈیلٹا ائیر لائن نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ مسافر کی جانب سے عربی زبان میں گفتگو کے بعد بہت سارے مسافروں نے شکایت کی اور کہا کہ اس مسافر کے ساتھ سفر میں وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے، ایک درجن سے زائد مسافروں کی شکایت کے بعد ہی آدم کو پرواز سے اتارا گیا۔یہ رویہ صرف آدم کے ساتھ نہیں روا رکھا گیا بلکہ، اسی سال ایک مسافر کی جانب سے عربی میں انشاء اللہ کہنے کے بعد ایک خاتون کی جانب سے پرواز انتظامیہ کو شکایت کی گئی جس کی وجہ سے اسے پرواز سے اتار دیا گیا۔ اسی طرح اک شخص کو اپنی بیوی کو عربی زبان میں ٹیکسٹ میسج لکھتے دیکھ کر پرواز سے اتاردیا گیا تھا۔ یہ واقعات سوشل میڈیا پر آنے کے بعد ہی میرے علم میں آئے۔ کچھ نیوز ویب سائٹس کھنگالنے کے بعد یہ انکشاف بھی ہوا کہ امریکہ اور یورپ میں ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔
Freedom of Expression
عربی زبان بولنے کی وجہ سے مسافروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے بعد ان کو ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ ہے اِس مغرب کا چہرہ، جہاں کوئی دوسری زبان نہیں بولی جاسکتی۔ آدم کے معاملے میں چار پاکستانی مسافروں نے پائلٹ اور مسافروں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مذکورہ مسافر عربی میں اپنی والدہ سے گفتگو کررہا ہے، مگر ان کی بات بھی کسی نے نہیں سنی، دوسری جانب پائلٹ خود بھی جانتا تھا کہ وہ غلطی پر ہے مگر ہجوم کے سامنے وہ خود کو بے بس خیال کررہا تھا۔آدم کی دو ویڈیوز میں نے بھی دیکھیں اور بار بار دیکھیں، ٹوئٹر پر آدم اور ائیرلائن کے ٹوئٹس پڑھے۔ اِس معاملے پر مختلف انگریزی اخبارات کی خبریں اور تبصرے دیکھے، میں حیرانی کے سمندر میں غوطے کھانے لگی، کیسا گھناؤنا چہرہ ہے۔
آزادی اظہارِ رائے پر مادر پدر آزاد معاشرہ تخلیق تو پاگیا مگر کیا وجہ ہے کہ یہاں آزادی کا تصور محض گوری چمڑی کے لئے ہی ہے؟ ہاں اسی معاشرے میں جہاں ایک کالے کو صدر بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہاں رنگ و نسل کا کوئی امتیاز نہیں، تو دوسری جانب مسلمان امریکیوں اور سیاہ فارم باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں پہلے سے زیادہ تیزی دیکھنے کو ملی۔مجسمہ آزادی نصب کرکے خود کو آزاد تصور کرنے سے بہتر ہے کہ جیتے جاگتے انسانوں کو اْن کے حقوق دئیے جائیں۔ آج کے جدید دور میں غلامی کا تصور جہاں محال ہے، وہاں زبان اور ثقافت کے نام پر امتیاز بھی ممکن نہیں ہے۔ مغربی معاشرہ اخلاقی پستی اور ذہنی معذوری کا شکار نظر آتا ہے۔ میرے سامنے وہ تمام سراپے گردش کر رہے ہیں جو نسلی امتیاز کا شکار نظر آتے ہیں، ان میں باریش مسلمان اور عام افریقی نہیں بلکہ مغربی معاشرے کے رنگوں میں رنگے ہوئے روشن خیال مسلمان اور اعلیٰ عہدوں پر اپنے فرائض ادا کرنے والے افریقی شامل ہیں۔
میں اْن سب میں وہ وجوہات اور اْن کی غلطیان تلاش کرنے کی جستجو میں مگن ہوں، مجھے اْن کے اندر تو غلطیاں نظر نہیں آئیں مگر مغرب میں پروان چڑھنے والا ایک خاص ”مائنڈ سیٹ” اس سارے عمل کی بنیاد نظر آتا ہے۔انکل سام کے دیس کے باسیوں! یاد رکھو معاشرے تباہی کی جانب تبھی گامزن ہوتے ہیں جب ان میں امتیازی رویے پروان چڑھتے ہیں۔ معاشروں کو تباہی کی جانب دھکیلنے والے عوامل میں بنیادی عمل نسلی امتیاز ہے، اب آپ پر منحصر ہے کہ اپنے معاشرے کی بقاء کے لئے آپ کیا اقدامات کرتے ہیں۔