تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ پاکستان کی عوام اور حکومت نے جشن آزادیِ پاکستان شان وشوکت سے منایا۔ فجر کی نماز کے بعد پاکستان کے استحکام و ترقی کے لیے عام مسلمانوں نے د مساجد میںعائیں کیں۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں میں ٣١اور صوبائی حکومتوں میں ٢١ توپوں نے سلامی پیش کی۔اسلام آباد میں پاکستان ایئر فورس نے ہوائی مظاہرہ بھی کیا۔ خوشی کے اس موقعہ پر ہمارے عظیم دوست چین کے نائب وزیر اعظم نے پاکستانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آزادی کی تقریبات میں شرکت کی۔صدر ِپاکستان نے اس موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ اختلافات کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کی ترقی میں سب کو شریک ہو نا چاہیے۔
کراچی میں پاک بحریہ کے چاک و چوبند دستہ نے قائم اعظم کے مزار پر سیکورٹی کے فرائض سنمبھالے اور لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر پاکستان کی بری فوج کے چاک و چوبند دستہ نے سیکورٹی کے فرائض سنمبھالے۔ دوسری طرف پاکستان کے مقبوضہ صوبہ جموں و کشمیر میں بھارت نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ صاحبو! ڈوگرہ راج کے دوران١٩٣٢ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس سے متاثر سیکولر شیخ عبداللہ نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بنائی تھی جس کا مقصد برٹش انڈیا سے الحاق تھا۔ ١٩٣٩ء میں اس کے نام کو نیشنل کانگریس سے تبدیل کیا گیااور اس کے سیکولر ایجنڈے کااعلان کیا۔
اس کے برعکس١٣ جون ١٩٤١ء میں چوہدری غلام عباس صاحب کی سربرائی میں سیکولر شیخ عبداللہ کے مقابلے میں آل جموں کشمیرمسلم کانفرنس کے پلیٹ سے آل انڈیا مسلم لیگ کے دوقومی نظریہ کی فکرسے الحاق کر کے پارٹی کو سیکولرزم کی بجائے نظریہ اسلام کا مینیفسٹو دیا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت، تقسیم ہند کے ایک ماہ بعد ١٩جولائی ١٩٤٧ء کو آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنے ایک اجلاس میں الحاق پاکستان کی قراداد منظور کی تھی۔ جس کے تحت جموں و کشمیر کو قانونی طور پر پاکستان کا پانچواں صوبہ بننا تھا۔ مگر بھارت فوج نے ناجائز طریقے سے فوج کشی کر کے اس پر قبضہ کیا اور اسے غلام بنا لیا۔ اس لیے ہم اپنی تحریروں میںجموںو کشمیر کو پاکستان کا ایک صوبہ کہتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کی تازہ خبریں یہ ہیں کہ کشمیری، برہمنی اور فرعونی صفت بھارت کے خلاف ١٥ اگست کو بھارت کی یوم آزادی کے موقعہ پر یوم سیاہ منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
تازہ خبروں کے مطابق مظفر برہان وانی کی شہادت کے بعد جاری آزادی کی جد وجہد کے دوران بھارت درندوں کی سفاکیت پر مبنی سرچ آپریشن کے دوران تین مظلوم کشمیریوں کو فائرنگ کے بے دردی سے شہید کر دیا۔جن کے نام ماجد شیخ،عادل ملک اورعرفان شیخ شامل ہیں۔ ایک مسجد اور چار مکانات کو بھی مسمار کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف علاقہ میں عوام باہر احتجاج کرتے ہوئے باہر نکل آئے انہوں نے مظاہرے کیے تو اخلاقیات سے عاری بھاتی درندہ صفت فوجیوں نے ان نہتے عوام پر حسب سابق پیلٹ گن سے فائر کر ١٢ مظاہرین کو زخمی کیا۔مقامی ٹیم سے کرکٹ میچ جیتنے پر آزادی اور اسلام کے حق میں نعرے لگانے پر دو نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ویری ناگ میں ٢٢ سالہ نوجوان کو کالے قوانین کے تحت جیل منتقل کر دیا گیا۔ کشمیری تو تحریک آزادی ِپاکستان کو ابھی تک جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ یوم آزادی پاکستان کے دن اپنے گھروں اور دکانوں اور مظاہروں میں پاکستانی سبز پرچم لہراتے ہیں۔ہر مظاہرے میں کہتے ہیں ہم کیا چاہتے آزادی۔ ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چایتے ہیں۔یہ کشمیریوں کا روز کا معمول ہے۔
اگر دیکھا جائے تو آزادی حاصل کرنے کے لیے ڈوگرہ راج سے لے کر اب تک پانچ لاکھ کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ کشمیر میں تعینات آٹھ لاکھ بھارتی درندہ صفت فوجیوں نے سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی اربوں کی پراپرٹیوں، جس میں مکانات، دوکانیں اور باغات شامل ہیں آزادی مانگنے اور پاکستان سے الحاق کی وجہ سے گن پائوڈر چھڑک کر خاکستر کر دیا ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کو قید کے دوران ازاہتیں اور ٹارچر کر کے اپائج بنا دیا ہے۔ ہزاروں عزت مآب کشمیری خواتین کو جنگی حربے کے طور پر بھاتی فوجیوں نے آبر وریزی کی ہے۔ کئی کشمیریوں نوجوانوں کو اجتمائی قبروں میں دفنا دیا گیا جن میں اب کچھ میڈیا کے سامنے آ چکی ہیں۔ کئی کشمیریوں کولاپتہ کر دیا ہے۔ اُن کی جوان بیویاں انتظار میں اپنے با ل سفید کر بیٹھی ہیں۔ اُن مائیں بہنیں اُن کے لیے رُو رُو کر اپنے آنکھوں کے آنسو ختم کر چکی ہیں۔
ہیومن رائسٹ کی بین الاقوامی تنظیموں کو کشمیر کے حالت سے با خبر ہونے سے روکا گیا۔ او آئی سی نے ثالثی کی پیشکش کی جس کو فرعون مزاج بھارتی حکومت نے رد کر دیا۔ اب تو بدنام زمانہ بیلٹ گنز، جن کو انسانیت دشمن اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کے لیے بنایا تھا۔بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے استعمال نہ کر سکا اور یہ بیلٹ گنز اس کے کباڑ خانوں میں پڑی زنگ آلود ہو رہی تھی۔ ان کو بھارتی فوجی درندوں نے اسرائیل سے حاصل کیا اور نہتے کشمیریوں پر استعما ل کر رہا ہے۔ اس سے سیکڑوں کشمیری اندھے ہو چکے ہیں۔ صاحبو!کشمیری تو تحریک آزادیِ کشمیر کو تکمیل پاکستان کے لیے جاری کیے ہوئے ہیں۔ مگر پاکستان کے حکمران اس کے خلاف بھارت کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت کو فوقیت دیتے ہیں۔ بھارت کشمیریوںکی نسل کشی کررہا ہے اور اعلانیہ کہتا کہ پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کیے ہیں اب اس کے مذید دس ٹکڑے کریں گے۔ بھارت کا دہشت گرد وزیر اعظم گذشتہ یوم آزادی پر کہتا ہے کہ بلوچستان اور گلگت کے لوگ اسے مدد کے لیے فو ن کال کر رہے ہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی کھلم کھلا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔وہ افغانستان کی قوم پرست بھارتی اور امریکی پٹھو اشرف غنی حکومت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔
اس نے کراچی میں ایم کیو ایم کے ایجنٹوں کے ذریعے افراتفری پھیلائی اور پاکستان کو ریوینیو کما کے دینے والے شہر کو اپنی نامی گرامی ایجنٹ اور غدار پاکستان الطاف حسین کے ذریعے سیکڑوںہڑتالیں کروا کے تباہ کر دیا۔ جسے فوج نے ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے کنٹرول کیا ۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اپنے پاس بیٹھایا ہوا ہے۔ ان کے ذریعے دہشت گردی کروا رہاہے۔ان حالت میں ہمارے حکمران نے بھارتی حکومت کے را کے چیف اور اس کے وزیر اعظم کو اپنی نواسی کی شادی میں بُلایا۔ بھارت کے اسٹیل ٹائیکون کو مری میں بغیر وزارت خارجہ کی اطلاع کے بُلایا جس سے پاکستان میں بدگمانی اور شک و شبات پیدا ہوئے۔ بھارت کے پاکستان توڑنے کے بیانات پر کبھی کوئی رد عمل نہیں دیا۔بھارتی جاسوس حاضر نیوی کے ملازم کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر رد عمل نہیں دیا۔بھارت کے مستقل جارحانہ رویہ کے خلاف ہمیشہ معذرتانہ رویہ اختیار کیا۔ جب بین لاقومی صحافیوں نے پاناما میں آف شور کمپنیاں پکڑی جس میں سابقہ حکمران کی فیملی کے نام آئے۔ نواز شریف نے خود کو دو دفعہ الیکٹرونگ میڈیا اور ایک دفعہ پارلیمنٹ کے فلور پر احتساب کے لیے پیش کیا۔ عدالت کے حکم پر ٹی اور آر بنانے میں لیت ولیل سے کام لیا۔جماعت اسلامی ،تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے سپریم کورٹ میں نے انصاف کے حصول کے لیے مقدمہ قائم کیا۔ نواز شریف نے لکھ کر دیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مانیں گے ۔ فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے تحقیق کے لیے خود جے آئی ٹی بنائی۔
عدالت کے پانچ معزز ججوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ دیا کہ نواز شریف عوامی عہدے کے لیے نا اہل ہیں۔ آئین کے مطابق نواز مسلم لیگ سے ہی نیا وزیر اعظم چن لیا گیا۔ جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آئی نہ آئندہ آئی گی انشاء اللہ۔نواز شریف کو نہ کشمیر کے مظالم کی فکر نہ اس کی آزادی نہ تکمیل پاکستان کی۔ پس اسے عہدہ جانے کی فکر کھا گئی ہے۔ راولپنڈی سے لا ہور تک چار روزہ احتجاجی مارچ میںپاکستان کی عدلیہ اور فوج کے خلاف مہم چلائی۔” مجھے کیوں ہٹایا گیا۔ مجھے کیوں ہٹایا گیا” کی رٹ لگائی۔ علامہ اقبال کے مزار پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں ٧٠ سال سے جاری تماشہ بند نہ ہوا تو ملک کسی حادثے کا شکار ہو جائے گا۔ ہاں ٹھیک ہے ٧٠ سال سے جاری لوٹ گھسوٹ ٹوٹ کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو سیاستدانوں کا ایسا ہی حشر ہو گا۔ملک انشاء اللہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ لوگ تو کہتے ہوئے سنے گئے کہ کشمیر کے مظالم سے چشم پوشی اور ممتاز قادری کی پھانسی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے سز ا ملی ہے۔اے کاش! کہ پاکستان کے حکمران کشمیریوں کی طرف سے جاری تکمیل پاکستان کی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ تحریک پاکستان میں اللہ سے کیے گئے وعدے کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت قائم کر دیںتو سیاست دان کرپشن نہیں کر سکیں گے۔ جمہوریت کا تسلسل بھی چلتا رہے گا۔ پھر اللہ آسمان سے رزق نازل کرے گا۔ زمین اپنی اندر کے خزانے اُگل دی گی۔کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کشمیر پاکستان کے ساتھ مل جائے گا۔ کشمیر کی جاری تحریک تکمیل پاکستان کی تحریک مکمل ہو گی۔ اللہ کشمیریوں کی جد وجہد کو قبول فرمائے آمین۔