تحریر: سائرس خلیل تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ 1947 میں دو ممالک کو دنیا کے نقشے پر مرتب کر دیا گیا۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان او 15اگست 1947 کو ہندوستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ جوکہ ایک عالمی سامراج کی چال تھی اور اِسی رسم اور چال کو آگیئں بڑھاتے ہوئے آج ان دونوں ممالک کے لوگ جشنِ آزادی مناتے ہیں۔ خود ساختہ آزادی کے متوالے آج بھی اس دن کو ملک وقوم کی فتح کا نام دیتے ہیں اور جشنِ آزادی مناتے ہیں۔ (ہندوستان اور پاکستان کی جگہ اگر لفظ برصغیراستعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا)۔ ہاں تو برصغیر کے لوگ اس غلط فہمی میں ہیں یا غلط فہمی میں ڈال دیے گئے ہیں کہ آزادی کے معنی ایک ملک کا دنیا کے نقشہ پر اضافہ کرنا ہے۔
حالانکہ آزادی کی سرحدیں اِس خیال سے کوسوں دور شروع ہوتی ہیں۔ریاست کے قیام کا اصل مقصد بھوک، ننگ، بیروزگاری، جہالت، غربت، بیماری اور استحصال کے خاتمے کے لیئے داغ بیل ڈالنے کے ہوتے ہیں۔ جس میں برصغیر اس دور کے حساب سے کہیں نا کہیں کامیاب تھا پر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش مکمل طور پر ناکام رہے۔ آزادی سے مراد ایسا نظام عمل میں لانا ہے ‘جہاں پر ہر شہری کو سماجی، معاشی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی آزادی حاصل ہو’۔
Pakistan Poverty
ایسی ریاستوں کے قیام کا مقصد کیا؟ ایسی آزادی کی منزل کیا؟ جہاں بھوک وافلاس ہر در پے دستک دیتی ہو۔ جہاں بچہ جوان ہونے سے پہلے ہی فکرِ معاش میں مبتلا ہو جائے۔ جہاں 65 نوجوان روزگار کے لئیے دردر ٹھوکریں کھائیں۔ جہاں سکولز میں بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ جہاں مندر، مسجد، یاکسی بھی عبادت گاہ میں جہنم جیسا منظر پیش کیا جائے۔ جہاں مذہب کے نام پر نفرت کا درس دیا جائے۔
جہاں بچوں کے ساتھ ظلم کیے جائیں۔ جہاں ہر روز بچے اغواہ ہوں۔ جہاں بچوں کے ساتھ جنگیں لڑی جائیں۔ جہاں دن دھاڑے ڈاکے ڈالے جائیں۔ جہاں قتل عام ہو۔ جہاں پانی مہنگا اور خون سستا ہو۔ جہاں پر کرپشن اپنے عروج پر ہو۔ جہاں دہشگردی اپنے جوبن پر ہو۔ جہاں انسان کی بنیاد جنس پر رکھی جائے۔ جہاں عورت خود کو عورت کہنے میں تذلیل محسوس کرئے۔ جہاں انصاف دولت والوں کی لونڈی ہو۔ جہاں عدالت اور تھانے بے گناہوں سے بھرے ہوں۔ معذرت کے ساتھ میں یہ کہوں گا کہ وہاں صرف تباہی ہوتی ہے۔ وہاں جشن نہیں ماتم ہوا کرتے ہیں۔وہاں آزادی نہیں غلامی ہوا کرتی ہے۔
Freedom
جنابِ قارئیں میرا مقصد ہر گز کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں بلکہ ایک حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔ اپنی اور آپ کی آنکھوں سے پٹی ہٹانا مقصد ہے جو لاشعوری طور پر ہم نے باندھ رکھی ہے۔آپ خود سوچ لیں!!! ایسی ریاست جہاں پر شہری سکون سے گلی میں نہیں نکل سکتا۔ جہاں پر ہر لمحہ گزارنے کے ساتھ ہی اپنا اختتام بھی نظر آتا ہو۔ کیا ایسی ہی آزادی ہوتی ہے؟ ہندوستان اور پاکستان کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔روٹی،کپڑا،مکان،صحت، تعلیم،تعمیر، روزگار جیسی چیزیں بھی جہاں نایاب ہوں وہاں کیسی آزادی؟ میں ہندوستان اور پاکستان میں جشنِ آزادی منانے والوں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں وہ کس بات کا جشن منا رہے ہیں؟ وہ کس لحاظ سے آزاد ہیں؟ اگر یہی آزادی ہے تو غلامی کسے کہتے ہیں؟ جہاں نہ مال محفوظ ہو،نہ عزت محفوظ ہو، نہ ابرو،نہ جان ، نہ مستقبل محفوظ ہو۔ کیا ایسی جگہ ریاست کہلاتی ہے؟ کیا یہی آزادی ہے؟ جناب قارئین یقینی طور پر ان تمام سوالات کے جواباب آپکے بھی میری طرح نفی میں ہوں گئے۔ پاکستان اور ہندوستان کی عوام کو صحیح اور سائنسی پہلوں کو مدنظر رکھ کر اپنی حقیقی آزادی کی کوشش کرنی چاہیے۔
آج بھی برصغیر کے لوگ نوآبادیاتی تسلط کا شکار ہیں۔ جو کہ ان کا اصل مسئلہ ہے۔ کل تک برطانیہ سے احکامات آتے تھے اور یہاں وائسرائے عمل درآمد کرواتے تھے۔ اور آج کون نہیں جانتا کہ وہی احکامات برطانیہ کے بجائے واشنگٹن سے آ رہے ہیں۔آج وائسرائے کی جگہ اْنہی کی منشا سے حکمران آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ یہاں پر حکمران اور جنرنیل کوئی قابلیت کی بنیاد پر نہیں آتے بلکہ عالمی دنیا ان کو سلیکٹ کرتی ہے اور حکمرانوں کو الیکٹ نہیں سلیکٹ کیا جاتا ہےـ تو اس سب کے بیچ میں بیچاری عوام کہاں گی؟ وہ آزادی کی جنگ کیا اپنی منزل تک پہنچی؟ یقینی طور پر نہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کو سامراجی قوتوں کے تسلط سے آزاد ہو کر سائنسی بنیادوں پر اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ورنہ وہ دن دور نہیں کہ برصغیر کے لوگ بھوک، ننگ، بیماری، اور پسماندگی میں اپنی مثال آپ بن کر رہ جائیں گئے۔۔ اور یہاں انسانوں کی جگہ لاشوں کے ڈھیر ہوں۔ پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر عوام کے مسائل کو دور کرنا چاہیے۔ نہ کہ اپنی دشمنیوں کو اپنی نسلوں کے حوالے کرکے نا ختم ہونے والی جنگ کو چھیڑنا چاہیے۔