آزادی کوئی پیلٹ میں رکھ کر نہیں دیتا اسے حاصل کرنے کے لئے طویل جدو جہد کے ساتھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں آج ہم اگر آزاد فضاوں میں سانس لے رہے ہیں تو یہ ہمارے بزرگوں کی بے پناہ قربانیوں اور قائد محترم کی جد و جہد کا نتیجہ ہے۔
“دنیا میں کئی لوگ ہیں جو تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو دراصل تاریخ تخلیق کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح تاریخ تخلیق کرنے والے چند لوگوں میں سے ایک تھے۔ اپنی جدوجہد کے اوائل دور میں، سروجنی نیدو جو آزادی کی تحریک کی بانیوں میں سے تھی، جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتی تھیں۔ جناح کی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947ء کا خطاب بلاشبہ ایک انسانی مساوات کا بہترین اظہار تھا ، جس کی رو سے ہر ایک شہری کو اپنے مذہب کے حساب سے زندگی گزارنے کا مکمل حق اور آزادی حاصل ہے۔ ریاست کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ شہریوں میں ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق کرے۔ اس کے ساتھ ہی قائد نے انسانی تکریم احترام کی اعلی مثالیں قائم کیں۔ یہ انہیں کی جمہوری جدو جہد کا ثمر ہے کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ آزاد فضاوں میں آزادی کے گیت گنگنا رہا ہے۔
14اگست ہماری زندگیوں میں سب سے اہم دن ہے اس دن ہم آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرے ہماری انفرادی واجتماعی خوشیوں کا محور و مرکز یہی دن ہے۔ہمارا وطن عزیز پاکستان وہ وطن نہیں جو وراثت میں اس کے بسنے والوں کو ملا ہوں بلکہ پاکستان کی بنیاد میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ اور پانی کی جگہ خون استعمال ہوا ہے۔اتنی گراں قدر تکالیف کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے۔جس نے تعمیر پاکستان میں تن، من ،دھن، بیوی بچے، بھائی بہن، عزیزواقارب قربان کیے۔پاکستان یونہی حاصل نہیں ہو گیا تھا اس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بچے قتل کر دئے گئے۔کتنے خاندانوں کو مکانوں میں بند کرکے نذر آتش کردیا گیا کتنی پاکدامنوں نے نہروں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی کتنے بچے یتیم ہوئے جو ساری عمر اپنے والدین کی شفقت کے لیے ترستے رہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان حاصل کرنے کے لئے ہمارئے ابا و اجداد کو ایک بہت بڑی بلکہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی دینی پڑی لیکن ہم اس قربانی کی قدر نہ کر سکے ہمارئے ملک میں کیا کچھ نہیں قدرت نے ہمیں بے پنا وسائل سے مالا مال کیا لیکن ہم نے قدر نہ کی اورآج کاسہ لئے جگہ جگہ گھوم رہے ہیں۔
آپ اندازہ لگائیے اس کی وادیاں اپنے اندر فردوس کی دنیا لیے ہوئے ہیں ہرے بھرے اور وسیع و عریض کھیت سونا اگل رہے ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ میں ہر قسم کی آزادی اور ہر طرح کا سامان آسائش و آرائش میسر ہے۔
عزیز ہم وطنو! 14 اگست 1947 وہ مبارک دن تھا جب مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آئی ،ہمیں پاکستان سے محبت ہے اس کے بانی سے عقیدت ہے اس کے مصور سے دلی لگاو اور اسے حاصل کرنے کی راہ میں جاں قربان کرنے والوں کے لئے ہمارے پاس مغفرت کی دعا ہے۔قدرت نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے یوم آزادی ہم سے ہر سال اسی عہد کی تجدید کرواتا ہے کہ ہم اس ملک کی حفاظت کریں گے اس کی خدمت میں دن رات مصروف رہیں گے پاکستان عالم اسلام اور اقوام عالم میں سب سے اعلی ملک کے طور پر ابھرے۔ ہم جو بیرون ممالک بستے ہیں ہم اپنے وطن کے سفیر ہیں ہم جہاں بھی جس حثیت میں ہمیں اپنے وطن کا نام روشن کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے ہمیں ایک بہترین سفیر ہونے کا بھی حق ادا کرنا ہے اور وہ ہم اپنے اعلی اخلاق و کردار سے ادا کر سکتے ہیں۔
آج اکتہرواں آزادی کے اس پر مسرت موقع پر ہمیں خود سے اپنے آپ سے ایک سوال کرنا ہےکہ کیا ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے؟ یا کیا ہم اس پہچان پر واقعی فخر کرنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یقین جانیے کہ راستہ صاف اور منزل نزدیک ہے۔ اٹھیے! اور اس یومِ آزادی پر اپنے ملک و ملّت کے ساتھ ساتھ خود سے بھی یہ تجدیدِ عہدِ وفا کیجے کہ “یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہی ہیں پاسباں اس کے اور ہم ہی اسے بام عروج پر پہنچائیں گے”۔