فرانس (جیوڈیسک) متعدد فرانسیسی صحافیوں پر ریاستی راز افشا کرنے کے الزامات عائد کیے گئے اور خفیہ اداروں نے ایسے صحافیوں سے پوچھ گچھ کی۔ فرانسیسی میڈیا کو خدشہ ہے کی صدر ماکروں کے اقتدار میں ملک میں آزادی صحافت خطرے میں ہے۔
پیرس کے وسط میں سینکڑوں لوگ ایک کیفے میں بیٹھے ایک ویڈیو دیکھ رہے ہیں، جو Disclose نامی میڈیا کمپنی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بنائی ہے۔ فوٹیج یمن کی ہے جس میں فرانس میں تیار کردہ ٹینک دیکھے جا سکتے ہیں۔
ماتھیاس دیستال اسی ٹیم کے ایک صحافی ہیں اور وہ وضاحت کر رہے ہیں کہ ان کی ٹیم کی تحقیق کے بعد کیوں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ حکومتی ملکیتی اسلحلہ ساز کمپنی نیکسٹر نے اسلحہ اور ٹینک سعودی عرب کو فراہم کیے اور بعد میں یہ اسلحہ یمن میں عوام کے خلاف استعمال ہوا اور یہ بھی کہ پیرس حکومت اس بات سے آگاہ بھی تھی۔
یہ رپورٹ نہ صرف ناظرین کے لیے حیران کن تھی بلکہ اس کے بعد حکومت نے بھی فوری ردِ عمل دکھایا اور صحافی کے خلاف ریاستی راز افشا کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر دیا کیوں کہ رپورٹ کی بنیاد خفیہ حکومتی دستاویزات پر تھی۔ اس رپورٹ کے بعد فرانسیسی خفیہ اداروں نے دیستال اور دو دیگر صحافیوں سے پوچھ گچھ کی۔
دیستال نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے ڈسکلوز کی ادارتی پالیسی، سرمایے کے ذرائع وغیرہ کے بارے میں سوالات پوچھے کہ کیا اسے ‘ریاستی راز‘ کی اصطلاح کے معنی معلوم ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر دونوں صحافیوں سے ان کے سوشل میڈیا پر جاری کردہ پرانے پیغامات کے بارے میں بھی پوچھا گیا، جن کا موجودہ رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
دیستال کے بقول خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس رپورٹ کے صحافتی ذرائع سے متعلق صرف ایک سوال پوچھا جس کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ اس تفتیش کا مقصد صرف ان پر اور ان کی ٹیم پر دباؤ بڑھانا اور انہیں خوفزدہ کرنا ہے۔
صحافی ماتھیاس دیستال (بائیں) اسی میڈیا ٹیم کا حصہ ہیں جس نے فرانسیسی ہتھیاروں کے یمنی عوام کے خلاف استعمال ہونے کے شواہد فراہم کیے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا، ”عام طور پر صحافیوں کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کیا جاتا ہے لیکن اس معاملے میں انکوائری کوئی آزاد جج بلکہ دفتر استغاثہ کے پاس ہے جو خود عملی طور پر وزارت انصاف کے ماتحت ہیں۔‘‘
اگر انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں پانچ سال تک کی قید اور 75 ہزار یورو تک کا جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
‘آزادی صحافت پر حملہ‘
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈر کی خاتون ترجمان پاؤلینے آدیس میول نے ان واقعات کو تفتیشی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے کہا، ”یہ حقیقت کہ خفیہ ادارے صحافیوں سے پوچھ گچھ کریں ایک مسئلہ ہے، لیکن جس تیز رفتاری سے ایسا کیا گیا، وہ اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جاری مقدمات میں صحافیوں کا وقت اور توانائی خرچ ہو رہی ہے اور اس دوران وہ اپنی صحافت پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہے۔ علاوہ ازیں اس کے اثرات دوسرے صحافیوں اور صحافتی ذرائع پر بھی مرتب ہوں گے کیوں کہ وہ کسی ایسی کہانی پر تحقیق کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے۔