تحریر : قادر خان یوسف زئی شاید یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ جس ماحول میں رہتا ہے، اس کے برعکس ماحول ملنے پر اُسے متعدد کیفیات سے گذرنا پڑتا ہے۔ مستقل آباد افراد کو اپنے مسائل کے ساتھ اس کے حل کیلئے بھی مسلسل غور و فکر کی ضرورت رہتی ہے۔ فرانس کے شہر پیرس کے لا ٹیبل افغان ریسٹورنٹ میں اپنے میزبان کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کی تشویش ناک صورتحال کے بعد ریاستی اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف موثر حکمت عملی پر اور پیرس میں71 سال بعد کرفیو لگنے کے بعد فرانسیسی مسلم کیمونٹی کے تحفظات ، اسباب و سدباب کوجاننے کی کوشش کررہا تھا، خوشبوئوں کے شہر پیرس میں دہشت گردی یا تشدد کا یہ واقعہ نیا نہیں تھا بلکہ200 برسوں سے فرانس میں تشدد کے کئی واقعات رونما ہو چکے تھے۔
فرانس کے فوجی اور سیاسی رہنما نپولین بونا پارٹ پر 1800ء کے اواخرمیں جبکہ بادشاہ لوئس فلپ پر 1858ء میںحملے کیے گئے جو ناکام ہوئے۔ 1961ء میں چارلس ڈیگال پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اس کے ٹھیک ایک برس بعد 1962ء میں فرانس کی وزارت خارجہ کے دفاتر کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔اس کے بعدسے اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق2015 سال کے آخر تک تین درجن حملے ہوچکے تھے۔یہودی النسل کے خلاف بھی فرانس میں نفرت پائی جاتی ہے ، فرانس کے حوالے سے مسلم امہ میں ناراضگی کا پہلو اُس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب فرانسیسی جریدے نے توہین آمیز خاکے شائع کئے اور فرانسیسی حکومت نے ایسے اظہار رائے کی آزادی قرار دیا ، جبکہ دنیا بھر میں توہین آمیز خاکوں کی شدید مذمت کی گئی ۔ یہ اتفاق تھا کہ میں اس واقعے کے بعد پاکستان سے جانے والی ایک ڈاکو مینٹری ٹیم کی ہمراہ مختصر وقت کیلئے پیرس گیا تھا، جس میں مجھے فرانسیسی مسلم کیمونٹی کو درپیش مسائل سے آگاہی ہوئی۔ گو کہ واقعے کو چند مہینے گذر چکے تھے جس میں سینٹ ڈینس کے شمالی مضافات میں جرمنی اور فرانس ٹیم کے فٹبال میچ کے دوران اسٹیڈیم کے قریب تین دھماکے ہوئے تھے جبکہ پیرس کے بٹا کلان تھیٹر میں 100افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس میں پیش آنے والے ان واقعات کو (جس میں 150سے زائدافراد ہلاک اور 250زخمی کے قریب ہوئے تھے) سب سے ہلاکت خیز مانا جاتا ہے۔دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے بعد فرانس کے صدرفرانسو اولاندنے اپنی قوم کوٹیلی ویژن پر تقریر میں اپنی قوم سے خطاب بھی، ملک کی سرحدوں کی عارضی بندش و ہنگامی حالات کے نفاذ کے ساتھ پیرس شہر میں کرفیو لگا دیا تھا۔فرانسیسی ریاست دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ ہے لیکن فرانسیسی مسلمانوں کے ساتھ ریاست اور عوام میں اسلام فوبیا کا تاثر بہت نمایاں ہوا ہے ۔ جس کی وجہ سے فرانسیسی مسلمانوں کو مسائل کا سامنا ہے۔
مغرب میں دہشت گردوں نے جس طرح اسلام کو بدنام کرنے کیلئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کئے اس سے مسلمانوں کی تکالیف میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم کیمونٹی کو گوناگوں مسائل درپیش ہیں۔فرانس میں رہائش پذیرمسلمانوں کو خونی نو آبادیاتی تاریخ رکھنے والے فرانس میں اپنا مستقبل تشویشناک نظر آتا ہے۔فرانس میں اسلام سے تعلق رکھنے والوں کی پریشانی یہ بھی ہے کہ اگر فرانس کے باشندے کا نام “مسلم” ہے تو اُسے فرانسیسی باشندے کی نظر سے نہیں بلکہ ایک عرب ، ایک مبینہ دہشت گرد سے دیکھے جانے لگا ہے۔پیرس حملوں کے بعد سے مسلم کیمونٹی کے لئے مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فرانس کی کم و بیش ڈھائی ہزار مساجد میں 20نومبر کو جمعے کے خطبے میں 13نومبر کے پیرس حملے کی شدید مذمت کی گئی جبکہ فرانسیسی مسلمانوںکی مرکزی تنظیمCFCM ( کونسل آف مسلم فیتھ جو فرانسیسی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان رابطے اور اماموں کے تقررکا کام کرتی ہے۔یہ 2003ء میں قائم کی گئی تھی۔) نے بھی دہشت گردی اور تشدد کی ہر ممکنہ شکل کی مذمت کی تھی۔گو کہ پیرس حملے میں ہر عمر اور مختلف مذاہب سے متعلق افراد نشانہ بنے تھے ۔ لیکن اسلام کا نام استعمال کرنے والی دہشت گرد انتہا پسند تنظیم داعش کی جانب سے واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کے سبب مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوا۔
حالاں کہ داعش نے جتنا نقصان مسلمانوں کو دیا ہے ، غیر مسلموں کے نقصانات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔فرانس کی 66ملین کی مجموعی آبادی اور مسیحیت کے بعد دوسرے بڑے مذہب اسلام سے وابستہ 50لاکھ مسلم کمیونٹی کو اپنے اسلامی فرائض ادا کرنے اور مساجد کی کمی میں کافی مشکلات کا سامنا ہے ۔فرانسیسی مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد دارالحکومت پیرس، لِیوں، سٹراسبرگ اور مارسے جیسے شہروں یا ان کے نواحی علاقوں میں رہتی ہے۔ پیرس میں مسلم کمیونٹی نے حکومت کی جانب سے مساجد فراہم نہ کرنے پر سڑک پر احتجاجاً نماز پڑھی تھی۔کیونکہ فرانسیسی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا جارہا تھا ۔ گزشتہ سال فرانس کے ایک میئر نے بھی مسلمانوں کے لیے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ” شہر میں مسلمان طالب علموں کی تعداد بھی ایک مسئلہ ہے”۔فرانسیسی مسلمانوں کو نئی مساجد پر حکومت کی جانب سے پابندی کا سامنا ہے۔
اس سے پیشتر مسلمانوں کے لئے مختص قبرستان پر مسلم قبرستان ناقدین کے اعتراضات سے بھی کافی مسائل پیدا ہوئے ، کیونکہ انھیں مسلمانوں کے جنازے دفن کرنے کے طریق کار پر اعتراض تھا کہ تابوت کے بجائے صرف کپڑے کی چادر میں لیپٹ کر مُردہ کیوں دفن کیا جاتا ہے ۔جس پر مسلم کیمونٹی نے اپنی حیرانگی کا اظہار کیا تھا اور مُردوں کو تابوت میں رکھ کر دفن کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ فرانس سائوتھ آل لاکورنیئو میں مسلم کیمونٹی کے قبرستان کے لئے 4000میٹر جگہ الاٹ کی تھی۔اس علاقے فارمر زوائل میں بدھ مت کا ایک مرکز اور مورمانی کا گرجا گھر پہلے سے ہے ۔ لیکن مسلم قبرستان کی مخالفت کی گئی ۔ یہ قصبہ اس جگہ سے تقریباََ25میل دور واقع ہے جہاں توہین آمیز خاکوں کی نمائش پر حملہ کرنے والے دو حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا تھا۔پیرس میں حملوں کے بعد ملک کے اندر ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد دو ہفتوں کے اندر الہدی ایسوسی ایشن اور اس سے ملحق مسجد سمیت20مساجد کو بند کردیا تھا ۔فرانس کی سینیٹ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ ان20 مساجد کو غیر ملکی ممالک سے مالی امداد ملتی ہے ۔ جس کی مالیت60لاکھ یورو ہے۔
فرانس میں اسلام فوبیا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ساحل سمندر میں نہانے کے لئے لباس کو بھی اسلام فوبیا سے جوڑ دیا گیا ہے۔مسلم کیمونٹی کو مختلف ہدایات جاری کیں جاتیں ہیںاور شکوک کے بادل ہمیشہ ان کے سر پر منڈلاتے رہتے ہیں ، داڑھی کا رکھے جانا بھی فرانس کے لئے پریشان کن ہے تو دوسری جانب مسلم کیمونٹی کے افراد کا پیچھا کرنا ، ان کے مسائل میں مزید اضافہ اور انھیں مذہبی تعصب کا نشانہ بناتا ہے۔کونسل آف مسلم فیتھ مسلم اماموں کی تربیت اور فنڈنگ اندرون ملک سے ہی کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے اور مسلم کیمونٹی کو یہ ہدایات بھی ہیں کہ وہ کسی مشکوک سرگرمی میں نظر نہ آئیں اور نہ ہی روابط رکھیں اور فرانسیسی مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں پر غور کریںاور کسی بھی مسئلے یا معاملے کو پیچیدہ و شدید بنانے سے گریز کریں۔
دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہوتا ہے جس کے لئے ایسے افراد کو استعمال کیا جاتا ہے جو آسانی کے ساتھ دہشت گرد تنظیموں کے پروپیگنڈوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں اس حوالے سے کافی منفی رجحانات دیکھنے میں آتے ہیں ۔ انسانی نظریات یا عقائد کے خلاف بلا روک ٹوک اظہار رائے نے نوجوانوں کے اذہان کو منتشر کردیا ہے۔ سوشل میڈیا میں اپنے نظریات کے پرچارک اس بات سے قطع نظر کہ اس کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں ، اپنی رائے زنی سے حمایتوں کے بجائے مخالفین کا اضافہ ضرور کردیتے ہیں۔ یہاں بات صرف ایک مغربی اقدار رکھنے والے یورپی ملک کی نہیں ہے بلکہ فرانس کی50لاکھ مسلم کیمونٹی کے ساتھ دیگر ممالک میں مقیم مسلم کیمونٹی کی بھی ہے جو اُس معاشرے میں امن و آشتی کے ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں لیکن اپنے چند انتہا پسندوںکی کسی مسلم ملک میں انتہا پسندی کی کاروائی سے براہ راست متاثر ہوکر مشکوک بن جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی نام نہاد اسلام کے نام پر بننے والی انتہا پسند تنظیمیں جب کسی غیر مسلم ملک میں دہشت گرد کی کاروائی کرتی ہے تو اُس ملک میں رہنے والی مسلم کیمونٹی بُری طرح متاثر ہوجاتی ہے۔اُن کے لئے اسلامی شعائر کی ادائیگی محال بنا دی جاتی ہے اور ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔مسلم کیمونٹی کسی بھی ملک میں ہو ، لیکن اس کی تکلیف سے کسی بھی ملک کا مسلمان باہمی طور پر جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ کسی بھی مسلم ملک کے مسلمان کا کردار و برتائو کا اثر کسی بھی مسلم یا غیر مسلم ملک کے رہائشی مسلمانوں پر براہ راست پڑتا ہے ۔ فرانسیسی مسلمانوں میں بھی ایک خوف کی اک بورچ بس گئی ہے جیسے پیرس کی خوشبوئیں ختم کرنے میں ناکام ہیں۔