فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی ملک فرانس کے روزنامے لے فیگارو میں وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانا کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے ملک میں آباد غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ فرانس میں امن عامہ کے خلاف جرائم اور انتہا پسند سمجھے جانے والے غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں سے ان کا رہائشی اجازت نامہ واپس لے لیا جائے گا اور انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فرانسیسی وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں خود اس امر کی وضاحت کی کہ پہلی بار اس سلسلے میں فرانس کی رفیوجی ایجنسی کو یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ جیرالڈ ڈرمانا کا کہنا تھا، ”ہم نے پہلی بار اپنی رفیوجی ایجنسی OFPRA سے کہا ہے کہ وہ ہماری جمہوریہ کی اقدار کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پانے والے ہر پناہ گزین کو فراہم کردہ تحفظ ختم کر دیں۔‘‘ فرانس کے وزیر داخلہ اور دائیں بازو کے سیاستدان ، جرائم اور امیگریشن کے حوالے سے اپنے سخت موقف کے باعث شہرت رکھتے ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئےکہا کہ اب ان کی توجہ ‘ایسے افراد کو میسر تحفظ کو ختم کرنے پر ہوگی جنہوں نے بنیاد پرستی یا عوامی نظم و ضبط سے متعلق قابل مذمت عمل کا ارتکاب کیا ہو‘۔شدت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا چاہیے، فرانسیسی عوام
فرانس میں چند سالوں سے مسلمانوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
فرانس میں موجودہ صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت کی طرف سے یہ پالیسی ملکی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے ٹھیک ایک سال قبل متعارف کروائی جا رہی ہے۔
اس پالیسی کو پیرس حکومت کی طرف سے امیگریشن، سکیورٹی اور اسلام پسندی پر از سر نو توجہ مرکوز کرنے کی تازہ ترین علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ماہرین اسے آئندہ الیکشن میں مسابقت کی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آئندہ انتخابات سے متعلق جائزوں کے مطابق دائیں بازو کی لیڈر مارین لے پین موجودہ صدر ایمانوئل ماکروں کی قریب ترین حریف ہوں گی۔
فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانا کے بقول گزشتہ تین مہینوں کے دوران 147 پناہ گزینوں سے ان کا ‘رفیوجی اسٹیٹس‘ یا پناہ گرین کی حیثیت واپس لی جا چُکی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”ہماری پالیسی واضح ہے: ہم غیر ملکیوں کو اس بات پر پرکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں نا کہ وہ کون یا کیا ہیں۔‘‘
دائیں بازو کی لیڈر مارین لے پین۔
فرانسیسی وزیر نے اخبار لے فیگارو کو بتایا کہ فرانس میں 1,093 ایسے غیر ملکی اس وقت غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جو فرانسیسی سکیورٹی سروسز کی واچ لسٹ پر ہیں۔ ان افراد پر مبینہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شبہ ہےاس لیے انہیں ایک بڑا خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں مشتبہ افراد کی اس فہرست میں قانونی طور پر فرانس میں رہائش پذیر مزید چار ہزار غیر ملکیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 25 فیصد الجزائر سے ہیں، 20 فیصد مراکش سے، 15 فیصد تیونسی باشندے ہیں اور 12 فیصد روسی شہری شامل ہیں۔
جیرالڈ ڈرمانا نے کہا ہے کہ وہ انتہا پسندوں کی فہرست میں شامل غیر ملکیوں سے رہائشی حقوق لے لینے کے خواہاں ہیں تاہم انہوں نے اس امر کا اعتراف کیا کہ کورونا کی عالمی وبا کے دوران غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا بہت مشکل ہے۔ دائیں بازو کی لیڈر مارین لے پین ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ایسے غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیا جانا چاہیے جن پر شبہ ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 ء میں اس یورپی ملک سے 24 ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا تھا جو کم از کم ایک دہائی کے دوران فرانس سے ملک بدری کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔
اسی عرصے کے دوران فرانس میں پناہ کے حصول کی ایک لاکھ چالیس ہزار درخواستیں بھی جمع کرائی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں اس عرصے کے دوران فرانسیسی حکام نے پہلی بار 2 لاکھ 75 ہزار غیر ملکیوں کو رہائشی اجازت نامے یا کاغذات بھی جاری کیے تھے۔