تحریر : ریاض جاذب بے ایمانی کے ایک معنی ”دروغ ” اور دروغ کے آگے تفصیل میں معنی ”ناحق ” کے معنی جب ڈکشنری میں ڈھونڈے تو اس کے معنی غیر واجب بھی لکھے ہوئے ہیں ۔غیر واجب کیا ہے یہ فلسفہ کوئی ایسا نہیں کہ یہ سمجھ میں نہ آتا ہو یا اس کو سمجھنے کے لیے لمبی چوڑی تشریح کرائی جائے ۔پس اتنا کافی ہے کہ غیر واجب خلاف قانون اور اخلاقیات کے برعکس ایک ایسا فعل جسے بے جا اور نامناسب قرار دیا جائے اور یہ فعل”صفت ذاتی ”کے زمرے میں آتا ہے ۔یعنی ہم سب کے ذاتی فعل ہر ایک انسان اگر یہ سوچ لے کہ اس نے ذاتی طور پر کچھ ناحق نہیں کرنا تو معاشرتی طور پر سب کچھ واجب ہوجائے گا اور غیر واجب ختم ہوجائے واجب ہی ایمانداری ہے بے ایمانی غیر واجب ہے ۔ انسان کے انفرادی فعل قوم کے لیے اجتماعی فعل بھی بن جاتی ہیں ۔ ہم سب کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے حصہ کی ایک چٹکی ایمانداری کی ا س دنیا میں ڈالنی ہوگی۔ جیسے درج ذیل ایک مختصر کہانی میں بیان کی گئی ہے۔
رحیم چاچا اپنی ایمانداری اور نیک عمال کی وجہ سے پورے گاؤں میں مشہور اور معتبرشخصیت جانے جاتے تھے۔ ایک بار انہوں نے اپنے ڈیرے پر کچھ دوستوں کو کھانے پربلایا تمام دوست بڑے جوش و خروش سے رحیم چاچا کی دعوت پر آئے دوستوں میں حالات و حاضرہ پر بحث جاری تھی کہ رحیم چاچا کے گھر سے کھانا آگیا سارے دوست کھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ ابھی کھانا شروع ہی کیا گیا کہ ایک دوست نے کہا کہ جناب کھانے میں نمک کم ہے تب رحیم چاچا کو بھی احساس ہوا کہ نمک تو واقعی کم ہے۔رحیم چاچا نمک لانے کے لئے اٹھے پھر کچھ سوچ کر اپنے بیٹے کو بلایا اور اس کے ہاتھ میں کچھ پیسے رکھتے ہوئے بولے بیٹا جا۔ ذرا، بازار سے ایک پڑیا نمک لیتا آ۔ بیٹا باپ سے پیسے لے کر جانے والا ہی تھا کہ باپ نے آواز دی کہ سن بیٹا”یہ خیال رکھنا کہ نمک صحیح دام پہ خریدنا، نہ زیادہ پیسہ دینا اور نہ کم”بیٹے کو تعجب ہوا
اس نے پوچھا،والد محترم زیادہ دام میں نہ لانا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن اگرمیں مول بھاؤ میںکمی لانے میں کامیاب ہوجاتا ہوں اور کم پیسوں میں نمک لاتا ہوں اور چار پیسے بچاتا ہوں تو اس میں ہرج ہی کیا ہے؟ رحیم چاچا نے کہا نہیں بیٹا ایسا کرنا ہمارے گاؤں کو برباد کر سکتا ہے! جا مناسب دام پہ نمک لے کر آ۔رحیم چاچا کے دوست بھی یہ ساری بات سن رہے تھے، ان میں سے ایک بولا بھائی تیری یہ بات سمجھ نہ آئی کہ کم قیمت پہ نمک لینے سے اپنا گاؤں کس طرح برباد ہو جائے گا؟چاچابولے ذرا سوچو جس دکان پر سے یہ نمک خریدنے جارہا ہے وہاں نمک جس نے برائے فروخت رکھاہا ہوا ہے وہ ہمارے گاؤں کے ایک مزدور ہے اس کا نمک دکاندار نے جس بھاؤ پر بھی فروخت کیا اس سے اپنا منافع پورا لے گا۔
Injustice
اس صوت میں نقصان مزدور کا ہے اورہم اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی توہین کرتے ہیں ۔جس نے پسینہ بہا کر بڑی محنت سے نمک بنایا ہے اس کے ساتھ ناانصافی ہے کہ ہم مقررہ یا مناسب بھاؤ کے بجائے اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائیں ۔رحیم چاچا بولا یہ ایسے ہے جیسا کہ معاشرے میں گند گی پھیلانا ۔دوست پھر بولا لیکن اتنی سی بات ہے ارے یہ تو ایک چٹکی کی بھی بے ایمانی نہیں اس سے اپنا گاؤں کس طرح برباد ہو جائے گا؟رحیم چاچا بولادیکھو دوستوں، شروع میں معاشرے کے اندر کوئی بے ایمانی نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ ہم لوگ اس میں ایک ایک چٹکی بے ایمانی کی گندگی کی ڈالتے گئے اور سوچا کہ اتنے سے کیا ہوگا۔
خود ہی دیکھ لو ہم کہاں پہنچ گئے ہیں بے ایمانی کی ایک چٹکی سے آج ہمارہ معاشرہ زیادہ خراب ہوچکا ہے اورہم ایک چٹکی ایمانداری کے لئے ترس رہے ہیں!اپنی روزانہ کی زندگی میں ہم بہت بار ایسا برتاؤ کرتے ہیںجس کو ہم اندر سے غلط سمجھتے ہیں ہمیں اس کا پتہ ہے کہ یہ غلط ہے۔ پر پھر ہم یہ سوچ کر کہ”اس سے کیا ہوگا” اپنے آپ کو سمجھا لیتے ہیں اور غلط کام کر بیٹھتے ہیں اور اس طرح ہم معاشرے میں اپنے حصے کی بے ایمانی ڈال دیتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا معاشرہ ہی بے ایمان کہلاتا ہے ۔چاچا بولے بھائیوں اگر ہم سب اپنے حصہ کی ایک چٹکی ایمانداری کی ڈالتے رہیں تو ہمارا معاشرہ تبدیل ہوسکتا ہے ہم سب کوشش کریں کہ ایمانداری کی بڑی بڑی مثال قائم کرنے کے بجائے اپنی روز مررہ کی زندگی میں ایمانداری کی ایک چٹکی کا حصہ ضرور ڈالیں معاشرے میں پھیلے ”گند” کو ایک چوٹکی ایمانداری سے ختم کرسکتے ہیں۔