اَب کوئی میری یہ بات مانے یا نہ مانے مگر جناب آج ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اُن مسائل اور پریشانیوں کو سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں جن کی وجہ سے ہم مسائل اور پریشانیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور آج اِس سے مبراہر فرد اپنے ذاتی، سیاسی اور فروعی اختلافات میں بٹ کر بس اپنے ہی فوائد کی باتیں کئے جا رہا ہے، جبکہ آج ہمیں جو سب سے بڑا اور گھمیبر مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی نادانی اور نااہلی سے پیدا کردہ اُن اسباب کو سمجھنے اور اِنہیں حل کرنے سے بھی عاری ہو چکے ہیں کہ جنہوں نے ہمیں مسائل کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔
دوسری طرف ہم اور ہماری قوم اپنے دوست و دُشمن میں تمیز کرنے سے بھی بیزار ہے، جنہوں نے اپنی سازشی نما دوستی اور اِس کی آڑ میں اُن کی اِن چالوں کو بھی نہیں سمجھ پائے ہیں جس کی وجہ سے ہم تباہی کے دھانے پہ پہنچ چکے ہیں مجھے یقین ہے کہ جس دن بھی ہماری قیادت کو اِس بات کا احساس ہو گیا ہمیں مسائل سے دوچار کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہماری وہ سُپر طاقتیں ہیں جو ہماری ہمدرد اور دوست بن کر ہمیں دیدہ ودانستہ دہشت گردی، فرقہ واریت کی آگ میں دھکیل کر دیگر مسائل سے دوچار کر رہی ہیں تو وہ دن کوئی دور نہیں کہ ہم دہشت گردی، فرقہ واریت سمیت کئی دیگر مسائل سے خود بخود نجات پالیں گے مگر شرط صرف یہ ہے کہ پہلے ہم وہ سب کچھ کر لیں جو ہم بھول کر بھٹک گئے ہیں۔
آج اِس میں کوئی شک وابہام باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ ہماری ساری قوم ایک دو نہیں بلکہ کئی حصوں میں بٹی محسوس ہوتی ہے، اگر اِن لمحات میں دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل نہیں کہ آج ہماری اِس تقسیم کا فائدہ اُن مُلک دُشمن عناصر کو ہو رہا ہے جو ہمارا شیرازہ بکھیرنے کے در پرتھے، مگر ہم نے خود کو اِس طرح تقسیم کرکے اُن کا یہ کام آسان کر دیا ہے اور اَب مُلک دُشمن عناصر اپنے مذموم عزائم کے لئے ہمیں جس طرح چاہ رہے ہیں استعمال کر رہے ہیں۔ اگرچہ اِس ساری صُورتِ حال سے جو منظر اور پس منظر نظر آ رہا ہے، اِس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنے ذاتی، سیاسی، فروعی اور فرقہ ورانہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور خالصتاََ اپنے مُلک اور قوم کی بقاو سا لمیت اور اِس کے استحکام کے لئے اپنے اندار مثبت اور تعمیری سوچیں پیدا کر لیں تو کوئی شک نہیں کہ ہم پھر سے ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اُ بھر سکتے ہیں جس سے ہمارے دُشمنوں کی سازشیں دم توڑ جائیں اور اِنہیں ہمارے اتحاد و اتفاق اور ملی یکجہتی اور ہماری اُخوت و مساوات کو دیکھنے سے ہی لرزہ طاری ہو جائے۔
Drone Attacks
وہ اِس طرح ہماری سر زمینِ پاک سے اپنے سر پیٹتے ہوئے اُلٹے پاؤں بھاگ جائیں، جس طرح شیطان اپنی ناکامی پر بھاگا کرتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ کسی بھی اپنے مُلکی اندرونی یا بیرونی معاملے کے حل کے خاطر یا کسی بھی وقت جب ہم کسی ایک نقطے پر متفق ہوتے ہیں تو ہماری خودمختاری اور ہماری سلامتی کو ستیاناس کر دینے کے چکر میں پڑے اور ہم پر ہر لمحہ اپنی ساری آنکھیں کھول کر اپنی نظریں جمائے رکھنے والے ہمارے دُشمنوں کو ہمارا اتفاق و اتحاد ایک لمحہ بھی برداشت نہیں ہوتا ہے اور وہ اپنی پوری سازشی قوت سے ہم پر کچھ اِس طرح سے ظاہری و باطنی طور پر حملہ آوار ہو جاتے ہیں کہ ہم اِن کی سازشوں کو سمجھے بغیر آپس ہی میں لڑنے اور مرنے لگتے ہیں، یکدم ایسے ہی جیسے اِن دنوں ہمارے یہاں یہ بحث زورو پر ہے کہ کون شہید ہے اور کون شہید نہیں ہے، اِس کی بحث کی ابتداء بھی سُپر طاقت کے ایک ڈرون حملے سے پیدا ہونے والی صُورتِ حال کے بعد ہوئی ہے۔
جبکہ آج ہماری مُلکی قیادت اور سیاستدانوں، علماء اکرام ،عسکری و سماجی اور بیور و کریٹس اشخاص سمیت ساری پاکستانی قوم کو سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہمیں اپنے اُس دُشمن اور اِس کے حواریوں کو سمجھنا ہو گا جو کئی سالوں سے ہمارا دوست بن کر ہمارے اتحاد و اتفاق اور ملی یکجہتی کی صفوں کو کھوکھلا کر رہا ہے، اِن کے بظاہر نظر آنے والے میٹھے میٹھے دوستی کے دوبول اور ہم آن پڑنے والی کسی بھی مصیبت کے وقت اِن کے ڈالرزکی چمک کی صورت میں دی جانے والی امداد اور اکثروبیشتر اِن سے قرضوں کے مدمیں ملنے والی رقوم اصل میں ہماری امداد نہیں ہوتیں ہیں بلکہ ہمارا دُشمن اور اِس کے ساتھی یہ سب کچھ محض اِس لئے کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہمیں اپنا مفلوج اور اپناتابع بنائے رکھیں سوچو تو آج درحقیقت ہم ایسے ہی ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہم میں اَب اتنی بھی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے کہ ہم اپنے اچھے یا بُرے کی کوئی تمیز کر سکیں آج ہمارا حال ایسا ہو گیا ہے کہ ہمیں اپنے ہر معاملے کے حل کے لئے اِن دوست نما عالمی سُپر طاقتوں کی جانب للچائی ہوئی نظروں سے ہی دیکھنا پڑتا ہے اور یہ ہماری ایک ہی نظر میں اپنے ڈالرز کی تچوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں اوریہ اِس طرح ہمارے اتنے قریب آجاتے ہیں کہ نعوذباللہ…ہم اپناسب کچھ اور حاجت روابھی اِنہی کو سمجھنے لگتے ہیں پھر یہ جو ہم سے کہتے ہیں ہم ویساہی کرنے لگ جاتے ہیں،اور اِن کے اشاروں اور احکامات کی تکمیل کرتے کرتے اُس حدتک بھی پہنچ جاتے ہیں کہ جس کا اِنہیں اور ہمیں بھی کوئی گمان نہیں ہوتا ہے، آج اگر کسی کو بھی میری اِن باتوں پر اتفاق نہ ہو وہ ابھی خود سے اِس کا تجزیہ کرنے بیٹھ جائے اور جب کسی نقطے پر پہنچ جائے تو پھر اپنے دل پرہاتھ رکھ کر اِس کا اقرار کرے کہ کیا یہ سب ایسا نہیں ہے جیسا میں نے مندرجہ بالاسطور میں رقم کیا ہے.
بہر حال..! آج ضرورت اِس امرکی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ہو گا اگرچہ یہ فریضہ صرف عوام ہی ادانہ کریں (اِنہیں توہر حال میں ایساکرناہی پڑے گا) مگر اِس مقصد کے لئے ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں، عسکری قیادت، مذہبی و سماجی اور تجارتی و بیورو کریٹس اشخاص کو بھی اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا کہ یہ لوگ بھی اپنے دل و دماغ کو اِس مقصد کے لئے آمادہ کریں کہ یہ آئندہ اپنے دوست نما کسی بھی سُپر طاقت کے ڈالرز کی چمک و امداد اور اپنی ذاتی ترقی و خوشحالی کے جھانسے میں آنے کے بجائے اِس کی اور اِس کے حواریوں کی اُن سازشوں کو سمجھیں گے جس کی وجہ سے دنیا کی سُپر طاقتیں ہم پر غلبہ پا رہی ہیں اور ہمیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں، اَب وقت یہ ہے کہ ہمیں خود کو مسائل سے نکالنے اور سنبھالنے کے لئے امریکا سمیت دیگر مُلک دُشمن طاقتوں کی سازشوں کو سمجھنا ہو گا۔ (ختم شُد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com