تحریر : انجینئر افتخار چودھری اور آج اپنی ماں اس دنیا سے چلی گئیں میرے پیارے دوست رونق بزم یاراں جدہ جناب ملک محی الدین جو اوورسیز اعوان فورم کے اور مسلم لیگ سعودی عرب کے روح رواں ہیں ان کی والدہ بوشال سے وائیس چیئرمین ملک عظمت حیات کی ماں جی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔کسی نے کہا ہے کہ میں آپ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں یہ رسم دنیا ہے دکھ تو اس کو ہوتا ہے جس کی ماں چلی جائے البتہ یہ معاشرتی خوبصورتی کی علامت ہے کہ ہم کہہ دیتے ہیں۔ہاں جب بھائیوں دوستوں کی مائیں جان سے جاتی ہیں تو اپنی مائوں کا بچھڑنا یاد آتا ہے آج پھر بے جی یاد آئیں آج پھر جدہ میں ملک محی الدین چودھری اکرم چودھری اعظم مسعودپوری کے درمیان میری اپنی ماں کے وہ دن یاد آئے جب ہر افطار پارٹی میں بے جی جایا کرتیں مرحوم ارشد خان بھی یاد آئے اور ملک محی الدین اور اکرم بھی جو بے جی کی انتہائی قدر کرتے ایسے ہی آج ایک ماں اس دنیا سے گئی۔سچ پوچھیں لوگ کہتے ہیں میرے پاس وہ الفاظ نہیں جس میں اپنا دکھ بیان کر سکوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس وہ الفاظ ہی تو ہیں جن سے میں دکھ بانٹنے کی کوشش کر رہا ہوں جنازہ آج چار بجے ہے اور میں جبور ہوں پہنچ نہیں سکتا اس لئے کہ نصف بہتر شہر سے باہر ہیں اور میں فیملی کا دکھ فیملی کے ساتھ جا کر بانٹنا چاہتا ہوں۔ایسے ہی دکھ ہمیں محبت پیار کے رشتوں میں باندھ کے رکھتے ہیں۔پتہ نہیں لوگ کس طرح نفرتوں کو سینے سے لگائے زندہ رہتے ہیں ۔ہم کسی نہ کسی جگہ دوست اور بھائی ہوتے ہیں اور یہی بھائی چارہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملائے رکھتا ہے ان دنوں واسا کے چئر مین ضیاء اللہ شاہ کی والدہ بھی اس جیان فانی سے گئیں ناصف گورو جو پی ٹی آئی کے رہنما ہیں ان کی ماں بھی جہان فانی سے رخصت ہوئیں یہ جانے سردیوں کا موسم مائوں کی جدائی کا موسم کیوں بن گیا ہے ۔ہمیں ایک جگہ تو اکٹھے ہونا ہے بے شک نون قاف پی ٹی آئی ہمیں جڑنے نہ دے مگر شہر داری برادری تو ہمیں جوڑ دیتی ہے۔
ملک محی الدین سے میرا تعلق کوئی تیس سالہ پرانا ہے میں کٹر پی ٹی آئی کے ساتھ اور اس سے پہلے سماجی رشتوں میں جڑے حلقہ ء یاران وطن کے پلیٹ فارم سے کوشاں ہم ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہے۔لدھڑ کے چودھری شہباز حسین اور کراچی کے مسعود پوری ملتان کے ملک سرفراز گجرانوالہ کے نور جرال ایبٹ آباد کے سردار شیر بہادر ایک پاکستانیت کا رشتہ تھا جس میں جڑے رہے۔اللہ پاک دوستی کے ان سلسلوں کو قائم و دائم رکھے آمین۔
ملک محیالدین ایک چھتر چھایا شخص ہے اس نے اپنے آپ کو کھڑا کیا اور اور اپنے ساتھ اپنی فیملی کو بھی۔جدہ میں جانے والے کوئی بھی معتبر پاکستانی ہو ملک محی الدین نے انہیں عزت سے ٹھہرایا ان کے اعزاز میں تقریبات منعقد کیں اس کا حلقہ ء احباب وسیع تھا اعوان مسلم لیگ اور چکوال ان کی خاص محبتوں کا مرکز رہے۔چکوالئے کمال کے لوگ ہوتے ہیں پیار کرنے والے اکھڑ مزاج دلیر ۔ہماری فوج کا نشان ہیں یہ لوگ بہادری خوبصورتی ان پر ختم ہے علم ادب،سماجی خدمات میں کبھی یہ فتح محمد ملک کبھی مولنا اکرم اعوان ہیں کبھی احمد ندیم قاسمی اور کبھی ملک محی الدین۔
مائیں بہت اچھی ہوتی ہیں مگر ان میں ایک ہی خرابی ہوتی ہے وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔اب ان کی خالی چارپائی رلائے گی اس دن افتخار علوی کے گھر گیا ان کے بھائی بھی اسی چارپائی کو دیکھ کر ماں کو یاد کر رہے تھے۔ ماں جی ہماری بھی تھیں اللہ ان کو جنت کے اعلی درجات میں جگہ دے آمین ان کی اولاد کو ان کے لئے صدقہ ء جاریہ بناے دے۔
مدتیں ہوئیں ہم بھی اپنی ماں سے بچھڑے میں نے کسی جگہ لکھا تھا مائیں لیٹر بکس ہوتی ہیں شکایات ان میں درج کرائی جاتی ہیں اور ان کی جانب سے ہر ایک بیٹے کو یہی تلقین ہوتی ہے کوئی بات نہیں بیٹا اللہ بھلا کرے گا بھائی ہے تم بڑے ہو تمچھوٹے ہو۔جوابی خط کا متن ایک جیسا ہوتا ہے۔سب کو تسلی مل جاتی ہے سب ہی سمجھ جاتے ہیں کہ بے جی نے میرا ساتھ دیا ہے۔ ایک اور بات بتا دوں ماں باپ کو اس سے بڑھ کر دنیا کا کوئی صدمہ دکھ نہیں پہنچاتا سوائے اس کے کہ ان کی زندگی میں اس کی اولاد ایک دوسرے سے منہ بنائے زندہ رہے۔
زندگی اتنی مختصر ہے کہ ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ بچوں کو ماں پالتی ہے باپ دانہ دنکا چن کر بچوں کی ماں کو لا کر دیتا ہے اور یہ گھرانہ ایک لمبے سفر پر نکل پڑتا ہے۔مائیں زندہ رہیں باپ چلے بھی جائیں کوئی فرق نہیںپڑتا ہاں اگر اللہ نے اسے موقع دیا ہو کہ وہ اپنے چھوٹوں کو بڑا کر کے جائے۔ملک محی الدین کے اس دکھ میں نہ صرف میں بلکہ پورے جدے کی پاکستانی کمیونٹی شریک ہے پورے پاکستان کے لوگ جن سے ان کا پیار بھرا تعلق ہے۔میرا ان سے پیار دیکھئے جب میں پاکستان سے عمران خان کی تصویریں لے کر جا رہا تھا کہنے لگے یار میرے لیڈر دی وی تصویر لئے کے آویں ۔نواز شریف کی جو تصویر ان کے ڈرائنگ روم میں لگی ہے وہ میر طرف سے ان کو تحفہ ہے۔ہم نے سیاست کو دوستی پر غالب نہیں آنے دیا پتہ نہیں لوگ موت مرگ جنازے خوشیاں غم اور خوشی کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔
میں اس موقع پر ملک محی الدین کا شکر گزار ہوں جس نے میری دوستیاں ملاقاتیں جنرل مجید ملک میجر طاہر اقبال جنرل قیوم ملک سردار غلام عباس اور بے شمار اعوانوں سے کرائی۔مزے کی بات ہے فردوس عاشق اعوان بھی انہی کے توسط سے جدہ میں ملیں وہ پیپلز پارٹی میں تھیں لیکن اعوان ہونے کے ناطے ان کی مہمان بنیں۔صاف بات تو یہ ہے کہ میرے پاس سوائے جدہ کی حسین یادوں کے کچھ بھی نہیں اور ان میں سے ملک محی الدین چودھری اکرم اعظم چودھری شہباز حسین سردار شیر بہادر ملک سرفراز فاروق جاوید مسعود پوری کو نکال دیا جائے باقی کچھ نہیں رہتا باقی دوست ناراض نہ ہوں اس طرح تو لمبی لسٹ ہے۔اس دکھی دوست کے دکھ کے موقع پر سب کو یاد بھی نہیں رکھا جا سکتا ملک محی الدین اس ملک سے پاکستان پہنچ رہے ہیں جہاں انہوں نے ایک ایسے شخص سے اجازت نامہ لینا ہے کہ وہ پاکستان جائے یا نہ جائے۔ہو سکتا ہے وہ کفیل دیرہ (گائوں) گیا ہو اور ملک محی ا لدین وقت پر جنازے میں نہ پہنچ پائے لیکن میرا خیال ہے وہ پہنچیں گے ابھی ابھی ملک عظمت حیات سے بات ہوئی ہے جنازہ چار بجے ہے بوچھال خورد میں ۔اللہ پاک پوری فیملی کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین حقیقت تو یہ ہے کہ دوستوں کی مائیں اپنی ہی ہوتی ہیں۔