ایک رات اٹھائیس سالہ سٹوڈنٹ نے اپنی دوست کے کان کو دانتوں سے زخمی کیا، ایک دوسرا نوجوان رات کو اٹھ کر فرج سے فریز ہوا پیزا نکال کر کھا گیا اور ایک آٹھ سال کا بچہ رات کو ٹوائلٹ میں جانے کی بجائے دراز کھول کر پیشاب کر دیتا ہے۔ یہ واقعات مختلف جگہوں پر انسانوں کے ساتھ پیش آئے لیکن یہ سب انہوں نے جان بوجھ کر نہیں بلکہ نیند میں کیا جسے سلیپ واکرز کہا جاتا ہے کیونکہ اس عمل میں انسان گہری نیند میں ہوتا ہے لیکن اس کا ذہن جاگتا ہے۔
زیادہ تر سلیپ واکرز رات کو ادھر اُدھر چہل قدمی کرتے ہیں لیکن چند واقعات ایسے بھی رونما ہوئے کہ اُن سے جرم بھی سرزد ہو گئے ، ان کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی گئی لیکن ماہرین سراغ لگانے میں مصروف ہیں۔
سلیپ واکرز کے بارے میں جرمنی کے شہر میونسٹر کی یونیورسٹی کے نیورو لوجسٹ مسٹر پیٹر ۔یَنگ جو کہ جرمنی کے پہلے سلیپ واکرز میڈیسن نیورولوجسٹ برائے دماغی لہریں اور نیند سے مواثلت رکھتی بیماریوں کے ماہر ہیں کا کہنا ہے کہ گہری نیند میں دماغ سے ایک سگنل موصول ہوتا ہے جو انسانی جسم کو بیدار کر دیتا ہے لیکن دماغ خود گہری نیند میں رہتا ہے۔
ان کا کہنا ہے چار سے آٹھ سال کے بچے جن کی تعداد دس سے پندرہ فیصد ہے اور جوان لوگ ایک سے چار فیصد سلیپ واکرز ہیں ، ان محرکات کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں مثلاً ادویات، شدی بخار، کشیدگی، ڈپریشن ، شور یا عجیب سا ماحول ، رات کے آخری پہر میں زیادہ تر لوگ بیڈ سے اٹھتے ہیں انکی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں اور دماغ سو رہے ہوتے ہیں وہ نہ اپنے آپ کو اور نہ کسی دوسرے کو پہچانتے ہیں۔
خطرناک لمحات وہ ہوتے ہیں جب یہ لوگ کھڑکی کو دروازہ سمجھ کر باہر قدم رکھتے ہیں اور نیچے گر جاتے ہیں یا جب آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر پہچان نہیں پاتے کہ یہ کون ہے اور اُس پر حملہ کرنے کی صورت میں اپنے آپ کو خطرناک حد تک زخمی کر لیتے ہیں یا ایک مثال کینیڈا کے باشندے کینیتھ پارکر کی ہے۔
Court
اپنی کار میں بیٹھ کر تئیس کلو میٹر دور رہائیش پذیر اپنی ساس کے گھر گیا اور چھریوں کے وار سے قتل کرنے کے بعد اپنے گھر آکر سو گیا، اس کی بیماری پر تشخیص کرنے کے بعد عدالت نے اُسے قتل کے الزام سے باعزت بَری کر دیا، ابھی تک سلیپ واکرز پر کوئی مؤثر تحقیق نہیں کی گئی لیکن بڑے پیمانے پر منظم طریقے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
چار سال سے میونسٹر یونیورسٹی میں نیند کے محقق اور آسٹریا کے شہر اِنز بروک کی یونیورسٹی کے ماہرین ساتھ مل کر تحقیق کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے سلیپ واکرزکی بیماری اعصابیات، دماغی فلٹر میں شدید تبدیلی اور مِرگی وغیرہ کے میکانزم کے بارے میں نہایت دلچسپ اور نئے طریقہ کار سے ریسرچ جاری ہے۔
دوہزار چودہ کے آغاز سے میونسٹر یونیورسٹی سلیپ واکرز کو مشاورت فراہم کر رہی ہے جرمنی بھر سے اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو یہاں مشوروں اور علاج کیلئے بھیجا جاتا ہے بہت سے لوگ الجھن کا شکار بھی ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ علاج کیسے ممکن ہو گا ۔ ڈوکٹر یَنگ کا کہنا ہے کہ سلیپ واکرز کے ساتھ نرم رویہ اختیار رکھنا لازمی ہے اہم بات یہ ہے کہ ہمیشہ دروازے کھڑکیاں مکمل طور پر بند ہوں اور چابی کو چھپا دیا جائے۔
ان سے غصے یا حکم کے لہجے میں بات کرنے سے گریز کیا جائے اور آرام سے دوبارہ ان کے بیڈ تک پہنچا دیا جائے ، سلیپ واکنگ کوئی ایسی بیماری نہیں جو لاعلاج ہے لیکن انسان باہر سے جتنا سخت ہے اندر سے اتنا ہی کمزور ، دن بھر کے کسی اچھے یا برے واقعے کو ذہن نشیں کر لیتا ہے اور رات کو اعصابی تناؤ اور کھینچاؤ کا شکار ہو جاتا ہے ، کچھ لوگ اس پر قابو پا لیتے ہیں اور کچھ سیر سپاٹے کرتے ہیں۔
پاکستان میں اگر کسی کو نیند میں چہل قدمی کی بیماری ہے تو برائے مہربانی وہ مغربی لوگوں کی نقل کرنے کی کوشش نہ کرے ایسا نہ ہو کہ نیند میں چلتے ہوئے اگر کسی کو نقصان پہنچا تو مرنے والے کے لواحقین سلیپ واکرز کو گہری نیند سے جگا کر ابدی نیند سلا دیں گے، نہ پرچا، نہ چارج شیٹ، نہ کیس، نہ مقدمہ، نہ وکیل، نہ جج سیدھا اوپر۔۔۔