دوستی کا بندھن نہ ٹوٹنے دیں جرمن رہنماؤں کی امریکا سے اپیل

Donald Trump

Donald Trump

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) اب جبکہ امریکا جرمنی میں تعینات اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کی تیاری کر رہا ہے کئی جرمن ریاستی رہنماؤں نے امریکی ارکان پارلیمان کے نام اپنے ایک مکتوب میں ایسا نہ کرنے کی استدعا کی ہے۔

جرمنی کی ان چار ریاستوں، جہاں امریکی فوج تعینات ہے، نے کانگریس کے ارکان اور سینیٹرز کے نام اپنے ایک خط میں امریکی صدر کے اس قدم کی مخالفت کرنے کی گزارش کی ہے۔

ریاست بائرین، بیڈن ورٹمبرگ، ہیسی اور رائن لینڈ پیلاٹینیٹ کے رہنماؤں نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے کہ اس فیصلے سے باز رہنے کے لیے امریکی ارکان پارلیمان ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں۔ ان چارو ں ریاستوں میں امریکی فوجی اڈے ہیں۔

جرمن سیاست دانوں نے اپنے اس خط میں لکھا ہے کہ، ”یورپ میں امریکی فوج کی موجودگی اور نیٹو کی کارروائی کرنے کی صلاحیت ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ اس لیے ہم آپ سے حمایت کرنے کو کہہ رہے ہیں کیونکہ کہ ہم دوستی کے بندھن کو توڑنا نہیں بلکہ اسے مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور مستقبل میں جرمنی اور یورپ میں امریکی موجودگی کا تحفظ چاہتے ہیں۔”

یہ خط ریپبلکنز سینیٹر مٹ رومنی اور جم انہوفے سمیت 13 امریکی قانون سازوں کے نام تحریر کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ڈیموکریٹک اور ریپیبلکنز جماعتوں کے چھ سینیٹرز نے مشترکہ طور پر امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ برلن نیٹو کی افواج پر مناسب خرچ نہیں کر رہا ہے اور تجارتی مسائل میں بھی امریکا کے ساتھ اس کا رویہ اچھا نہیں ہے اس لیے انہوں نے جرمنی میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا اعلان کیا۔ انہوں نے جرمنی پر روس سے توانائی کی خرید و فروخت کا الزام بھی عائد کیا۔

امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جرمنی سے فوج کو واپس بلائے جانے کے بعد، ماسکو کو پیغام دینے کے لیے، اس میں سے کچھ فوجیوں کو مشرقی یورپ کے بعض ممالک میں تعینات کیا جا سکتا ہے، تاہم یہ تعیناتی کم وقت کے لیے نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے ہوگی۔

جرمنی کی مختلف ریاستوں اور علاقوں میں مجموعی طور پر امریکا کے 34 ہزار 500 فوجی موجود ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جرمنی سے ساڑھے نو ہزار امریکی فوجیوں کے انخلا کے ایک منصوبے پر 30 جون کو دستخط کر دیے تھے۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے صدر ٹرمپ کو ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔

پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوف مین نے کہا تھا کہ اس قدم سے ”جہاں روس کے خلاف صف بندی میں مدد ملے گی وہیں نیٹو کو بھی مزید

تقویت حاصل ہوگی۔” لیکن حکام کی جانب سے اس بارے میں اب تک کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی کہ جن فوجیوں کو جرمنی سے واپس بلایا جارہا ہے انہیں کہاں تعینات کیا جائے گا۔

امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے پر جرمنی میں بھی کافی نکتہ چینی ہوئی تھی اور ایک سینیئر قدامت پسند رہنما جوہان ویڈفل نے کہا تھا کہ یورپ کے لیے یہ امریکی فیصلہ متنبہ کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔” انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یوروپ خود اپنی ذمہ داریاں سنبھالے۔ ”اس منصوبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ قیادت سے متعلق اپنی بنیادی ذمہ داریوں میں لاپرواہی سے کام لے رہی ہے، اور حد تو یہ ہے کہ اس سے متعلق فیصلہ سازی کے عمل میں اتحادیوں کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔”