تحریر : محمد اشفاق راجا پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں ہفتہ کو شروع ہو گئیں، یہ مشقیں 15دن تک جاری رہیں گی اور10اکتوبر کو اختتام پذیر ہوں گی، دونوں ممالک کے درمیان یہ اپنی نوعیت کی پہلی مشقیں ہیں، جن کا نام”دوستی2016ء ” رکھا گیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کا آغاز2014ء میں روسی وزیر دفاع سرگئی شوئے کو کے دورہ پاکستان سے ہوا تھا، جب دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط بھی ہوئے تھے، جس کے بعد روس نے پاکستان کو جنگی سازو سامان کی فروخت پر پابندی ختم کی، پاکستان آزادی کے بعد پہلی مرتبہ روسی اسلحے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کر رہا ہے اور جنگی ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کی فروخت پر بات چیت ہو رہی ہے، جنگی مشقوں کے لئے70روسی فوجی جمعہ کے روز راولپنڈی پہنچے۔ اِن مشترکہ فوجی مشقوں میں زمینی افواج حصہ لے رہی ہیں اور آغاز گلگت سے ہو گا،دونوں ممالک کے200فوجی دو علاقوں میں جنگی مہارتوں کا مظاہرہ کریں گے، پہلے پاکستان کے شمال مغربی علاقے گلگت، بلتستان میں رتو میں ہائی ایلیٹی ٹیوڈ سکول اور بعدازاں خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے چراٹ میں مشقیں کی جائیں گی، ان مشقوں کا اعلان رواں برس کے شروع میں روس کی آرمی کے کمانڈر انچیف جنرل اولیگ سالو کرو نے کیا تھا، مشقوں کے لئے پہاڑی علاقوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
یہ مشترکہ مشقیں کئی لحاظ سے انفرادیت کی حامل ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ روس اور پاکستان میں اس طرح کی مشقیں اس سے قبل کبھی نہیں ہوئیں، چونکہ دونوں ممالک کے درمیان اس شعبے میں تعاون کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا، نہ روس نے کبھی پاکستان کو جنگی سازو سامان فروخت کیا، اس سلسلے میں پہلا معاہدہ2014ء میں روسی وزیر دفاع کے دورہ پاکستان کے موقع پر ہوا۔ دوستی کے نام سے شروع ہونے والی مشقوں کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور روس میں دوستی کے ایک نئے سفر کا شاندار آغاز بھی ہو گا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون میں اضافہ ہو گا قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی روس کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہو سکتا تھا اور اس کے امکانات اْس وقت پیدا ہوئے تھے، جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو دورہروس کی دعوت ملی، عین اْنہی دِنوں اْنہیں دورہ امریکہ کی دعوت بھی ملی اور انہوں نے اِس دعوت کوقبول کرتے ہوئے امریکہ کا دورہ کیا، جبکہ روس کا دورہ مؤخر کر دیا۔
دورہ امریکہ کے بعد روس کا دورہ بھی ہو جاتا تو شاید دونوں ممالک کے تعلقات شروع ہی میں مشکل صورتِ حال سے دوچار نہ ہوتے، لیکن بعد میں اس کی نوبت نہ آ سکی اور روس نے پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اور دونوں ممالک کے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو گئی اس کے برعکس پاکستان نے اپنے تعلقات امریکہ کے ساتھ بڑھا لئے اور امریکی سرپرستی میں بننے والے فوجی اتحاد سینٹو اور سیٹو کی رکنیت بھی حاصل کر لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جسے تاریخ میں ”سرد جنگ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور روس دونوں سپر طاقتیں تھیں اور دْنیا کے بیشتر ممالک انہی دونوں ممالک کے زیر اثر یا باالفاظِ دیگر ان کے کیمپ میں تھے،عالمی تنازعات میں امریکہ اپنے اتحادیوں کا ساتھ دیتا اور روس اپنے اتحادیوں کا۔ کیوبا کے بحران پر تو دونوں ممالک میں جنگ بھی ہوتے ہوتے رہ گئی تھی، جب روس نے امریکہ کے خلاف کیوبا میں میزائل نصب کر دیئے تھے تاہم اْس وقت کے امریکی صدر کینیڈی کی دھمکی کام کر گئی اور امریکی الٹی میٹم کے بعد روس نے میزائل ہٹا لئے۔
1965 Fight
پاکستان کو امریکی دوستی کا پہلا تلخ تجربہ1965ء میں ہوا،جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو معاہدے کے تحت امریکی دوستی کا مظاہرہ ہونا چاہئے تھا لیکن امریکی توجیح یہ تھی کہ امریکہ صرف اِسی صورت میں پاکستان کی امداد کا پابند ہے جب کوئی کمیونسٹ مْلک پاکستان پر حملہ آور ہو، امداد تو رہ گئی ایک طرف، امریکہ نے اسلحے کے اْن فاضل پرزوں کی سپلائی بھی روک لی جن کی دورانِ جنگ پاکستان کو اشد ضرورت تھی، غالباً یہی تلخ تجربہ تھا، جس کے بعد پاکستان نے امریکی اسلحے پر کلّی انحصار تدریجاً کم کرنے کا فیصلہ کیا اور قریبی دوست چین کے تعاون سے اسلحہ سازی کے میدان میں قدم رکھا اور اب پاکستان ٹینک اور جنگی طیارے خود بھی بنانے کے قابل ہو گیا ہے اور تھوڑی تعداد میں مشاّ ق تربیتی طیارے برآمد کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ جے ایف17تھنڈر طیارے بھی سری لنکا کو فروخت کرنے کا معاہدہ ہو چکا ہے۔
اس طویل پس منظر میں روس اور پاکستان کی جنگی مشقیں نہ صرف جنگی مہارتوں کے تبادلے کا ایک شاندار موقع فراہم کرر ہی ہیں، بلکہ دوستی کے اس سفر کی منزل وسیع تر دفاعی تعاون کی جانب بھی جاتی نظر آتی ہے، ایسے لگتا ہے کہ پاکستان اپنی اسلحہ کی ضروریات روس سے پوری کر سکتا ہے اور اِسی وجہ سے روس اب پاکستان کو اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی ختم کر چکا ہے۔ ان مشقوں کی اہم بات یہ ہے کہ جونہی اِن کا اعلان ہْوا بھارت نے اْنہیں رکوانے کی کوشش کی، حالیہ ہفتوں میں دو بار ایسا ہوا اور دونوں مرتبہ روس نے بھارت کو آگاہ کیا کہ یہ مشقیں حسبِ پروگرام ہوں گی اور بھارت کو ان سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ بھارتی وزیر دفاع مشقوں کو رکوانے کے لئے ماسکو کا دورہ کرنے کا پروگرام بھی بنا چکے تھے کہ اْڑی میں فوجی کیمپ پر حملہ ہو گیا اور وزیر دفاع کو دورہ منسوخ کرنا پڑا تاہم سفارتی چینل سے مشقیں رکوانے کی کوششیں جاری رکھی گئیں،لیکن اس میں بھارت کو ناکامی ہوئی۔
اب پروگرام کے مطابق پاکستان اور روس کی زمینی افواج کی ان مشقوں کا افتتاح ہو گیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں دو مشقیں جنگی مہارت کے تبادلے کی اہم کڑی ہیں اور دونوں ممالک کے فوجی ان سے بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔ یہ مشقیں صرف فوجی ہی نہیں، بلکہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا ایک نیا عہد بھی شروع ہو رہا ہے، جو اگر بہت پہلے ہو جاتا تو شاید خطّے کے حالات بہتر ہوتے تاہم دوستی کے اِس نظریئے کو بروئے کار لا کر اب بھی تاریخ کا ایک نیا ورق لکھا جا سکتا ہے اور امید ہے جو کچھ بھی لکھا جائے گا وہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔