تحریر : انجینئر افتخار چودھری ان کالموں میں ہم جناب طیب اردگان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی لڑائی میں اس حد تک آگے نہ جائیں جس سے ملک کی وہ طاقتیں جو ترکی کو یورپ کا حصہ بنانے میں مادر پدر آزاد کوششیں کر رہے ہیں۔فتح اللہ گولن اور طیب اردگان کی لڑائی ترکی کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔اللہ نہ کرے ایسا ہو۔
گزشتہ چار گھنٹوں سے میں گوگل پر فتح اللہ گولن کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔مجھے ترک اساتذہ کی تین دنوں کے اندر ملک چھوڑنے کی وجوہات کی تلاش تھی۔گزشتہ چند روز پہلے پاکستان کی حکومت نے ہندوستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا کہا تھا اس کے لئے بھی پانچ دن دئے گئے تھے۔
افغان مہاجرین کو تو کئی ماہ دئے گئے اور ملک واپسی کا اچھا خاصہ معاوضہ بھی دیا گیا۔شربت گلہ کا کیس کئی ماہ چلتا رہا اور جب وہ اس ملک سے گئی تو لوگوں نے برا محسوس کیا کچھ کا خیال تھا کہ وہ انڈین سفارت کاروں سے ملتی رہی وہ الگ بات ہے۔میں اس لئے بھی پریشان تھا کہ ان اساتذہ کا کیا قصور ہے؟پھر مجھے سمجھ آ گئی کہ ترک وزیر اعظم نے اس سے پہلے ناکام ترک فوجی انقلاب کے فورا بعد فتح اللہ گولن کو اپنا دشمن نمبر ون قرار دیا تھا۔فتح اللہ گولن کون ہے سمجھ لیجئے وہ ایک نرم اسلامی انقلاب کا حامی ہے۔
Recep Tayyip Erdogan
بعض لوگ اسے علامہ طاہرالقادری صاحب سے ملا رہے ہیں جو اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ دونوں افراد دنیا بھر میں بہترین اسکولوں کے بانی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تعلیم کے ذریعے انقلاب لایا جا سکتا ہے۔لیکن فتح اللہ نے کبھی ترکی آ کر دھرنے نہیں دیئے کبھی سر پر کفن نہیں باندھے۔میںقادری صاحب کی جد و جہد کا معترف ہوں یہاں بات گولن کے طرز انقلاب کی ہے۔میں ذاتی طور پر انہیں اخوان المسلمون بھی نہیں سمجھتا جو سیاسی جدوجہد میں مدارس کی بھی بنیاد رکھی اخوان نے اسلامی انقلاب کے لئے بے حد قربانیاں دی ہیں سید قطب امام حسن البناء حمیدہ قطب اور بے شمار شہداء اسلامی انقلاب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
تین روز پہلے پی ٹی آئی کے چیئرمین کو بھی تجویز دی تھی کہ وہ اردگان کا ستقبال کریں۔فیصلے سے اختلاف بھی تھا مگر جناب اردگان کی آمد پر ایسا لگا کہ وہ اس ملک میں آئے ہی نواز شریف کی خصوصی دعوت پر انہی کی فیملی کو ملنے آئے ہیں۔ اور یہاں آ کر مزید علم ہوا کہ حکومت وقت پاک ترک تعلقات کے پیچھے چھپ رہی ہے چلئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی کا تعلق تو پی ٹی آئی سے تھا انہیں نہ بلایا جات سندھ بلوچستان کشمیر گلگت بلتستان کی نمائیندگی تو ہونا چاہئے تھی۔وہ اسلام آباد آئے تو ان کا ستقبال بھی وزیر اعظم ان کی اہلیہ اور بیٹی نے کیا اب وہ لاہور چلے گئے ہیں جہاں حمزہ شہبازیاں ہوں گی۔کیا ہی بہتر ہوتا انہیں قائد اعظم کے مزار پر بھی لے جایا جاتا اور ان کے اس سفر میں سارے صوبوں کے نمائیندے ہوتے۔
یہی چیزیں نفرتیں پھیلاتی ہیں ۔آج ایک دوست جو پشتون تھے کہنے لگے یہ جو پنجاب ہے ناںہم جو بھی کر لیں ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا ۔اس لئے کہ یہاں سے منتحب ہونے والا اکثریتی نمائیندہ پورے پاکستان کا حکمران بن جاتا ہے لہذہ اس کے تین ٹکڑے ہونا چاہئے اور سچ پوچھیں تو بات بھی سچی ہے ادھر قیدی تخت لاہور کا نعرہ جنوبی پنجاب سے لگتا ہے ادھر ہزارے وال مضطرب ہیں اگر ہزارہ اور پوٹھوہار ملا کر ایک صوبہ اور جنوبی پنجاب ایک اور صوبہ بنا دیا جائے تو یہ بڑا چھوٹا تعصب ختم ہو جائے گا۔ورنہ یاد رکھئے پنجاب پہلے بنگال کھا گیا اب دوسرے چھوٹے صوبے اس کی بڑھوتی کا شکار ہو جائیں گے۔میاں نواز شریف کی فیملی طیب اردگان کے ساتھ اس طرح چمٹے ہوئے جیسے وہ نون لیگی ہوں اور حال ہی میں کوئی جہلم جیسا انتحاب جیت کر آئے ہوں۔
Turkey and Pakistan
اتنی تعداد میں اساتذہ کو ملک سے باہر نکالنا بہت بڑی زیادتی ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر چیخیں گی اور پاکستان کا وقار بحثیت اسلامی ملک تباہ ہو گا۔تصور کریں وہ بچے جن کا تعلیمی سال اب وسط میں ہے ان کا کتنا خسارہ ہو گا۔جو ترک یہاں ایک مدت سے رہ رہے تھے اور پاک ترک خردیش کی باتیں سنا کرتے تھے ان کے لئے یہ زمین کتنی اجنبی بنا دی جائے گی انہوں نے سوچا بھی نہ ہو گا۔حکومت پاکستان کو یہ فیصلہ واپس لینا چاہئے۔ہماری دوستی ترکی کے ساتھ ہے اردگان کے ساتھ نہیں افراد آتے جاتے ہیں نواز شریف کو بحیثیت لیڈر کردار ادا کرنا ہوگا۔اس قسم کے جذباتی فیصلے ہمارا قومی تشخص بگاڑ دیں گے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ میاں نواز شریف طرفینی کا کردار ادا کرنے کی بجائے صلح جو بنتے اپنے مربی ضیاء الحق کو ہی سامنے رکھتے جو ناراض ایران اور عربوں کو ہرارے میں اکٹھے کر کے نام کما گئے۔
گولن کا نظام تعلیم ایک نرم خو مسلمان بنانے میں مدد کر رہا ہے جو اسلام کے آفاقی نظام کو محبت پیار کے لہجے میں طلباء کو اچھا با عمل مسلمان بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ہمارے ہاں ان اداروں کو تو اجازت ہے جو جنسی تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔جو بڑی صوبائی زبان کو جاہلوں کی زبان قرار دے رہے ہیں ۔ اس دور میں جہاں آپ مدارس سے دہشت گردی کو جوڑ رہے ہیں آپ ایک اور زیادتی ان اسکولوں کو بند کر کے کر رہے ہیں جو دین کی نرم خوئی کی تبلیغ کرتے ہیں۔
آج گولن سسٹم کے تحت قائم کئے گئے ادارے بند کئے جا رہے ہیں جو ایک بڑی زیادتی ہے ہم نے ترکی سے دوستی کی ہے طیب اردگان سے نہیں۔تحریک انصاف نے اس سے پہلے بھی اس قسم کے اقدامات کی مخالفت کی ہے اور اب بھی کرے گی۔پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی آواز بلند کرنی چاہئے۔ان کالموں میں ہم جناب طیب اردگان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی لڑائی میں اس حد تک آگے نہ جائیں جس سے ملک کی وہ طاقتیں جو ترکی کو یورپ کا حصہ بنانے میں مادر پدر آزاد کوششیں کر رہے ہیں۔فتح اللہ گولن اور طیب اردگان کی لڑائی ترکی کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔اللہ نہ کرے ایسا ہو۔یاد رکھیں ہماری دوستی ترکی سے ہے طیب اردگان سے نہیں۔ہم تو تحریک خلافت کے دور سے اسلامی بھائیوں کے ساتھ ہیں۔