تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی عشرۂ قربانی گزر چکا اور آج چھٹے دن کا سورج بھی طلوع ہو چکا ہے مگر قربانی کی آلائشیں اور اُس کی پھیلتی ہوئی بدبو آج بھی شہر بھر کے گلی کے کونوں میں موجود ہیں جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔ جس ملک کے عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے محروم ہوں وہاں ڈیجیٹل پاکستان کا نعرہ سوائے جگ ہنسائی کے اور کچھ نہیں۔ آپ ڈیجیٹل پاکستان ضرور بنائیں اس سے عوام ہی خوشحال ہونگے مگر اس سے پہلے بنیادی سہولیات کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ جب بنیادی سہولیات نہیں ہونگی تو کروڑہا غریب خاندانوں کی کسمپرسی کیسی ہوگی یہ شاید ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ ابھی تک تو مہنگائی پر قابو پانے، کالا دھن واپس لانے جیسے دلفریب وعدوں کے ذریعہ ہی اقتدار پر آنے والی حکومت صرف دعوئوں اور وعدوں تک ہی محدود نظر آ رہی ہے۔ عملی طور پر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی بلکہ اُلٹا غریبوں کے لئے زمین تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے۔
تنخواہوں میں اضافہ ساڑھے سات فیصد اور اس کے فوری بعد شہرِ قائد میں بجلی کے نرخوں میں تیتیس فیصد اضافہ اور گیس کی قیمتوں میں تیرہ فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنی نے جو میٹر لوگوں کے گھروں میں نصب کئے ہیں وہ بھی لاجواب ہیں کہ گھر کے سارے بلب ، پنکھے، اور دیگر آلات بند بھی کر دیں تو بھی میٹر یونٹ میں اضافے کے لئے بھاگتا ہی رہتا ہے۔ ٨٠گز کے ایک مکان کا بِل بارہ بارہ ہزار روپئے آ رہا ہے۔ یہ ظلم غریبوں کے لئے کسی لمحۂ فکریہ سے کم نہیں، تنخواہوں سے گھر کے اخراجات پورے کرے یا پھر بِل ادا کرے۔عوامی مسائل کی یکسوئی اور ترقی کے بلند بانگ دعوے تو صرف انتخابات میں ووٹوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں، اگر واقعی ہمارے قائدین کے لئے عوامی مسائل کی یکسوئی اوّلین ترجیح ہوتی (جس کا کہ وہ اپنی تقاریر میں دعویٰ کرتے ہیں) تب تو ما بعد آزادی تقریباً ستر سالوں میں عوام کے تمام ہی مسائل حل ہو چکے ہوتے اور پاکستان آج ایک خوشحال اور دولت مند ملک ہوتا۔
Poor People
پر ایسا کچھ نہیں ہوا، کیونکہ ہمارے قائدین کے دعوے صرف کاغذوں اور تقاریر تک ہی محدود رہ گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی نصف سے زیادہ پاکستانیوں کو تین وقت پیٹ بھر کر کھانا تک نصیب نہیں ہوتا۔ اس قدر مجبور و بے بس عوام کے لئے ہمارے ارباب ڈیجیٹل پاکستان کا نعرہ دے رہے ہیں۔ یہ نعرے سننے میں دل خوش کن ضرور ہیں مگر اس سے نہ کسی غریب کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی کسی غریب بیمار کا علاج و معالجہ ہو سکتا ہے۔اور نہ ہی کسی غریب کے گھر کا چولہا جل سکتا ہے، اگر ہو سکتا ہے تو صرف اور صرف صنعت کار طبقہ کا بھلا جیسا کہ گزشتہ دہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔
کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافے سے روزگار میں اضافہ ہوگا، اور غریب عوام کو فائدہ ہوگا لیکن آج تک کتنے فیصد غربت کم ہوئی اور روزگار کے کتنے واقع فراہم ہوئے۔ وعدے اور دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن زمینی سطح پر حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں اور اس مرتبہ بھی حالات ایسے ہی لگ رہے ہیں۔آج بھی غریب عوام کے لئے طبی سہولیات مؤثر طور پر فراہم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں جاکر دیکھئے کہ ایک بھی دوائی آپ کو وہاں سے دستیاب نہیں ہوگی اور آپ کو میڈیکل اسٹور سے ہی پرچیز کرنا پڑیں گے۔آج پیاز ہمارے شہر میں ستر سے سو روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے، اب بتایئے کہ ہر قسم کے سالن بنانے کے لئے پیاز کا استعمال لازمی اَمر ہے مگر پیاز کے ریٹ ” اُف توبہ” غریب عوام کی زندگی میں آج بھی سدھار نہیں آیا، پانی ناپید، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بل انتہائی مہنگا، بلدیاتی سہولیات ناپید، علاج و معالجہ کی سکت نہ رکھنے والے غریب ادھر اُدھر کے ٹوٹکوں سے اپنا علاج کرتے ہیں۔ اس سے بچ گئے تو واہ واہ ورنہ اگلی زندگی کو سدھارجانا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
Rubbish
لاکھوں کروڑوں روپے کی اجرائی کے باوجود ملک کے تقریباً شہروں میں کوڑا کرکٹ اور گندگی کا راج ہے حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو صاف پینے کا پانی تک میسر نہیں، اُصولی طور پر تو پاکستان کی حکومت کو چاہیئے کہ وہ ملکی مسائل کی یکسوئی پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرے۔ عوام کے بنیادی مسائل کی یکسوئی کو ترجیح دے۔ عوام کو بنیادی سہولیات جو کہ ان کا حق ہے، فراہم کرے۔ کم از کم تنخواہ مبلغ ١٣٠٠٠ ہزار روپئے مقرر ہے مگر کیا ہر ادارے اور کمپنی میں یہ رقم مزدوروں کو دیا جا رہا ہے۔ اس کا سروے کرایا جائے تو جواب نفی میں ہی آئے گا۔ کیونکہ اکثر اداروں اور کمپنیوں میں صرف اور صرف آٹھ سے دس ہزار کی رقم ہی دیا جارہا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ : ” ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا” کے مصداق عوام کو کسمپرسی کی طرف ڈھکیلا جا رہا ہے۔
بے روزگار نوجوانوں کی ایک فوج ہے جو اس ملک کے کونے کونے میں مل جائیں گے ، ڈگریاں ہاتھوں میں ہیں مگر نوکری دستیاب نہیں۔ہُنر ہاتھوں میں ہیں مگر کام دستیاب نہیں۔ اختتامِ کلام بس اتنا کہ ”ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ترقی اور عصری ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے اس کی اہمیت تو مسلمہ ہے لیکن عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کی قیمت کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ارباب کو بیرونی دوروں میں تخفیف کرتے ہوئے اندرون ملک مسائل کی یکسوئی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔”