تحریر: چوہدری ذوالقرنین ہندل۔ گوجرانوالہ بیس اپریل کو میں ڈیپارٹمنٹ میں موجود تھا ایک دوست حافظ امیرحمزہ بھاگتے ہوئے آئے اور بتانے لگے کہ آج منیب اقبال شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے پوتے یونیورسٹی ایڈی ٹوریم میں تشریف لا رہے ہیں میرے ساتھ چلو انکا خطاب سنیں گے۔میں بہت کم ہی تقریبوں میں جاتا ہوں مگر حافظ صاحب نے ہمیں علامہ محمد اقبال کی عقیدت میں قائل کر لیا ۔ڈیپارٹمنٹ سے اجازت مانگی اور ایڈی ٹوریم کی طرف چل دیے لگ بھگ دو بجے کا وقت تھا پانچ منٹ بیٹھنے کے بعد میں نے جائزہ لیا کہ ابھی سیمینار کے آغاز میں کچھ وقت ہے۔میں اٹھ کر سیمینار کے آرگنائزر الیکٹرونکس سوسائٹی کے صدر عتیق الرحمان ان کے پاس چلا گیا اور اپنے بارے میں بتایا کافی رسپیکٹ ملی اورپھر ایونٹ کے بارے معلوم کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ ابھی منیب صاحب کے آنے میں کچھ وقت درکار ہے ہم ایونٹ کے فوری بعد ریفریشمنٹ کے دوران آپکی ملاقات منیب صاحب سے کروا دیں گے۔میں وہاں سے حافظ کو لے کر قریب ہی فلیٹ میں چلا گیا۔
ایک گھنٹے بعد کچھ با ذوق دوستوں صدام ثاقب اور اظہر نے ہمیں زبردستی پھر ساتھ لیا اور سیمینار میں چلے گئے یونیورسٹی آف لاہور الیکٹرونکس سوسائٹی والوں نے اچھا انتظام کیا ہوا تھالوگ پورے نظم و نسق کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے منیب صاحب کے آنے میں کچھ وقت ابھی بھی تھا اس سیمینار و ایونٹ کا نام و عنوان تھا” میسج آف اقبال ٹو یوتھ بائے منیب اقبال”۔ اس بار انتظار نہ کرنا پڑا تھوڑی ہی دیر بعد منیب اقبال تشریف لائے اور پر جوش استقبال کیا گیا تلاوت قرآن پاک سے باقاعدہ تقریب کا آغاز کیا گیا آپ سب جانتے ہی ہوں گے کہ اکیس اپریل٨٣٩١ کو علامہ محمد اقبال اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر لوگوں کے دلوں میں ابھی تک زندہ ہیں۔یہ تقریب علامہ صاحب کی برسی کے سلسلہ میں منعقد کی گئی تقریب میں لڑکوں نے اقبال کی شاعری سنائی اور نغمہ پیش کیا جی منیب صاحب کے خطاب کی باری آگئی آپ کو بتاتا جائوں کہ منیب اقبال کافی ہنسی مذاق والے انسان ہیں انہوں نے سٹیج پر آتے ہی کہا”پائی میں ڈاکٹر ڈوکٹر کوئی نئی ایویں مینوں وی لوگ اقبال صاحب دی عقیدت نال ڈاکٹر کہہ دیندے نے” ان کے اس سٹارٹنگ جملے سے لوگ زرا پہلے سے زیادہ متوجہ ہو گئے۔منیب صاحب نے کافی لمبا خطاب کیا جس میں سے کچھ سرسری باتیں بتا دیتا ہوں۔
Meeting with Munib Iqbal
انہوں نے بتایا کہ علامہ صاحب کی پیدائش فجر کی آذان کے وقت ہوئی اور جب وہ اس دنیا س رخصت ہوئے تب فجر کی جماعت کھڑی تھی یعنی انہوں نے اذان سے لے کر جماعت تک کا وقت پایا اور اس تھوڑے وقت میں لوگوں کے دلوں پر چھا گئے اور اللہ نے اتنا ذیادہ مقام عطا کیا۔بتایا کہ علامہ صاحب نے انگریز حکومت کی طرف سے ”سر” کا خطاب لینے سے انکار کردیا اور خواہش ظاہر کی کہ جب تک میرے استاد سید میر حسن کو ”شمس العلماء ” کا خطاب نہیں ملتا تب تک میں بھی یہ خطاب نہیں لے سکتا انگریز حکومت نے کہا کہ آپ کی نظمیں اور اشعار بہت سی اخبارات پر شائع ہوتے ہیں آپکو بہت سے لوگ جانتے ہیں مگر میر حسن ۔علامہ صاحب نے جواب دیا میں بذات خود چلتا پھرتا اپنے استاد کی ایک کتاب ہوں۔انہوں نے بتایا کہ علامہ صاحب نے انسانیت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لئے بھی شاعری کی اور نوجوانوں کو بیدار کیا کیونکہ نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں منیب صاحب نے اپنے دادا کے یہ اشعار بھی پڑھے۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاج سر دارا
منیب صاحب نے ایک واقعہ بتایا کہ نہرو پنڈت ایک دفعہ ملاقات کے سلسلے میں علامہ صاحب کے پاس تشریف لائے اور نیچے زمین پر بیٹھ گئے علامہ صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہا اوپر بیٹھیں جواب میں نہرو نے کہا ہم تو بہت چھوٹے درجے کے پنڈت ہیں آپ کے آبائو اجداد بہت اعلی درجے کے پنڈت تھے اسی لئے ہماری جگہ یہیں بنتی ہے علامہ صاحب کو بہت غصہ آیا کیونکہ وہ ایک سچے مسلمان اور درجوں پر یقین نہیں رکھتے تھے خیر پنڈت نہرو نے باتوں باتوں میں اقبال صاحب کو کہا کہ آپ نے محمد علی جناح کو مسلمانوں کی قیادت کیوں سونپی بلکہ آپ کو تو خود ہی مسلمانوں کی قیادت سنبھالنی چاہیے تھی علامہ صاحب کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگے میں تمہاری سازشوں کو اچھی طرح جانتا ہوں تم ہمارے اندر تفرقہ ڈالنا چاہتے ہو مگر میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا جان لو کہ مسلمانوں کے اصل لیڈر جناح ہی ہیں میں انکا ایک عام سا سپاہی ہوں اور ساتھ ہی نہرو کو گھر سے چلتا کیا۔منیب صاحب نے بتایا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اقبال اور جناح کی آپس میں بنتی نہیں تھی یہ انکی بھول ہے انہیں” لیٹرز آف اقبال ٹو جناح ”بک پڑھنی چاہئے بہت کم لوگ اس بک کے بارے میں جانتے ہیں یہ بک اقبال نے لکھی اور جناح نے پبلش کروائی۔علامہ صاحب کے دوقومی نظریے کے بارے میں سب جانتے ہیں منیب صاحب نے کافی چیزیں بتائیں جو پھر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔
Meeting with Munib Iqbal
تقریب کے فوری بعد ریفریشمنٹ تھی ریفریشمنٹ کے دوران میری منیب اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی دعا سلام کے بعد میں نے اپنا تعارف کروایا تھوڑی گپ شپ کے بعد میں نے منیب صاحب سے سوالات شروع کردیے۔میں نے بھی آغاز ہنسی مذاق سے کیا منیب اقبال ابھی غیر شادی شدہ ہیں شادی سے متعلق سوال کر دیا اور انہوں نے بڑی ہوشیاری سے یہ کہہ کر جان چھڑوا لی کہ اقبال بھی آزادی پسند تھے میں بھی ابھی آزادی چاہتا ہوں کچھ عرصہ بعد شادی کا سوچوں گا پھر میں نے یوتھ کے متعلق سوال کیا اور انہوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں ساری امیدیں یوتھ سے ہی وابستہ کرنی چاہیے عمر رسیدہ لوگوں کو تو بار بار آزما چکے ہیں میں نے سیاسی پاٹیوں کے بارے میں پوچھا تو کہنے سب ایک جیسے ہیں۔پی ٹی آئی کے بارے پوچھا تو کہنے لگ جیسے پی ایم ایل نواز ویسے ہی پی ٹی آئی سب ایک جیسے ہیںسیاست کے بارے انہوں نے زرا محتاط ہو کر جوابات دئیے۔
میں نے تبدیلی کے بارے پوچھا تو بتانے لگے کہ تبدیلی حقیقت میں سوچ کی تبدیلی ہے تبدیلی عوام کے شعور سے ہے ۔میں نے اقبال اکیڈمی کے بارے پوچھا تو کہنے لگے اقبال اکیڈمی کا نائب صدر ہوں اقبال اکیڈمی ہر کوئی جوائن کر سکتا ہے اسے جوائن کرنے کے لئے ایف اے بی اے تک تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے میں نے ان سے ذاتی زندگی اور سیاست کے بارے اور بھی بہت سے تیکھے سوالات پوچھے جن کویہاں بتانا ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ میراا ن سے ملاقات کا مقصد فیوچر میں علامہ صاحب کے بار میں معلومات حاصل کرنا ہے تاکہ ان سے مل کر وہ معلومات حاصل کی جاسکیں جو بہت کم لوگ علامہ صاحب کے بارے میں جانتے ہیں اور انشاء اللہ بہت جلد علامہ صاحب کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی اور منیب صاحب کے والد جاوید اقبال کے بارے میں بھی وقفوں میں لکھوں گا ۔فیوچر میں منیب صاحب سے ملاقاتوں کا مقصد صرف اور صرف معلومات حاصل کرنا ہے۔
آخر میں اقبال کا شعر ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا